صحيح البخاري
كِتَاب الزَّكَاة -- کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
22. بَابُ الصَّدَقَةِ فِيمَا اسْتَطَاعَ:
باب: جہاں تک ہو سکے خیرات کرنا۔
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، عَنْ عَبْدَةَ، وَقَالَ: لَا تُحْصِي فَيُحْصِيَ اللَّهُ عَلَيْكِ.
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا ‘ اور ان سے عبدہ نے یہی حدیث روایت کی کہ گننے نہ لگ جانا ورنہ پھر اللہ بھی تجھے گن گن کر ہی دے گا۔
حدیث نمبر: 1434
حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ. ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ , قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهَا جَاءَتْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ:" لَا تُوعِي فَيُوعِيَ اللَّهُ عَلَيْكِ، ارْضَخِي مَا اسْتَطَعْتِ".
ہم سے ابوعاصم (ابوعاصم ضحاک) نے بیان کیا اور ان سے ابن جریج نے بیان کیا۔ (دوسری سند) اور مجھ سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا ‘ ان سے حجاج بن محمد نے بیان کیا اور انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن جریج نے بیان کیا کہ مجھے ابن ابی ملیکہ نے خبر دی ‘ انہیں عباد بن عبداللہ بن زبیر نے اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما سے خبر دی کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (مال کو) تھیلی میں بند کر کے نہ رکھنا ورنہ اللہ پاک بھی تمہارے لیے اپنے خزانے میں بندش لگا دے گا۔ جہاں تک ہو سکے لوگوں میں خیر خیرات تقسیم کرتی رہ۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1960  
´سخاوت کی فضیلت کا بیان۔`
اسماء بنت ابوبکر رضی الله عنہما کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے گھر میں صرف زبیر کی کمائی ہے، کیا میں اس میں سے صدقہ و خیرات کروں؟ آپ نے فرمایا: ہاں، صدقہ کرو اور گرہ مت لگاؤ ورنہ تمہارے اوپر گرہ لگا دی جائے گی ۱؎۔ «لا توكي فيوكى عليك» کا مطلب یہ ہے کہ شمار کر کے صدقہ نہ کرو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی شمار کرے گا اور برکت ختم کر دے گا ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1960]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
بخل نہ کرو ورنہ اللہ تعالیٰ برکت ختم کردے گا۔

2؎:
اس حدیث سے معلوم ہواکہ مال کے ختم ہوجانے کے ڈر سے صدقہ خیرات نہ کرنا منع ہے،
کیوں کہ صدقہ وخیرات نہ کرنا ایک اہم سبب ہے جس سے برکت کا سلسلہ بند ہوجاتا ہے،
اس لیے کہ رب العالمین خرچ کرنے اور صدقہ دینے پر بے شمار ثواب اور برکت سے نوازتاہے،
مگر شوہر کی کمائی میں سے صدقہ اس کی اجازت ہی سے کی جاسکتی ہے جیسا کہ دیگر احادیث میں اس کی صراحت آئی ہے۔

3؎:
یعنی ابن ابی ملیکہ اور اسماء بنت ابی بکر کے درمیان عباد بن عبداللہ بن زبیر کا اضافہ ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1960   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1699  
´حرص اور بخل کی برائی کا بیان۔`
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس سوائے اس کے کچھ نہیں جو زبیر میرے لیے گھر میں لا دیں، کیا میں اس میں سے دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو اور اسے بند کر کے نہ رکھو کہ تمہارا رزق بھی بند کر کے رکھ دیا جائے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1699]
1699. اردو حاشیہ: یعنی گھر میں سے عام معمولات کے مطابق جیس کے خواتین گھر کی امین ہوتی اور اس کا انتظام چلاتی ہیں۔جو تھوڑا بہت میسر ہو صدقہ کردیا کرو۔۔۔اس کی بہت برکات ہیں۔جبکہ بخیلی ایک نحوست ہے۔ باندھ باندھ کر مت رکھو کا مطلب یہی ہے کہ بخل سے کام مت لو۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1699   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1434  
1434. حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے کہ وہ ایک دفعہ نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوئیں تو آپﷺ نے فرمایا:اپنے مال کو سینٹ سینٹ کر مت رکھو ورنہ اللہ اپنی رحمت تم سے روک لے گا اور جس قدر ممکن ہو خرچ کرتی رہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1434]
حدیث حاشیہ:
(1)
چونکہ حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ کے پاس اپنا ذاتی مال نہیں ہوتا تھا، اس لیے انہیں کہا گیا کہ حضرت زبیر ؓ کے مال سے جو کچھ میسر ہو خرچ کرتی رہا کرو۔
ایسا کرنے سے اللہ کی طرف سے رحمت کا نزول ہوتا ہے۔
لفظ إيعاء کے معنی روک لینا ہیں۔
(2)
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی نسبت مجازی ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔
قرآن و حدیث میں جو صفات اللہ کی طرف منسوب ہیں، انہیں حقیقت پر محمول کرنا چاہیے، لیکن جس طرح اس کی شان کے لائق ہے۔
وہ بندوں کو ان کے کردار کے مطابق جزا دیتا ہے۔
جیسا کہ مکروفریب اور دھوکے کی نسبت بھی اللہ کی طرف کی گئی ہے، اس لیے ایسے الفاظ کو مجاز پر محمول کرنے کی ضرورت نہیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1434