صحيح البخاري
كِتَاب الزَّكَاة -- کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
25. بَابُ أَجْرِ الْخَادِمِ إِذَا تَصَدَّقَ بِأَمْرِ صَاحِبِهِ غَيْرَ مُفْسِدٍ:
باب: خادم نوکر کا ثواب، جب وہ مالک کے حکم کے مطابق خیرات دے اور کوئی بگاڑ کی نیت نہ ہو۔
حدیث نمبر: 1437
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا , قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا تَصَدَّقَتِ الْمَرْأَةُ مِنْ طَعَامِ زَوْجِهَا غَيْرَ مُفْسِدَةٍ كَانَ لَهَا أَجْرُهَا، وَلِزَوْجِهَا بِمَا كَسَبَ، وَلِلْخَازِنِ مِثْلُ ذَلِك".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے جریر نے اعمش سے بیان کیا ‘ ان سے ابووائل نے ‘ ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب بیوی اپنے خاوند کے کھانے میں سے کچھ صدقہ کرے اور اس کی نیت اسے برباد کرنے کی نہیں ہوتی تو اسے بھی اس کا ثواب ملتا ہے اور اس کے خاوند کو کمانے کا ثواب ملتا ہے۔ اسی طرح خزانچی کو بھی اس کا ثواب ملتا ہے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2294  
´شوہر کے مال میں عورت کے حق کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب عورت اپنے شوہر کے گھر میں سے خرچ کرے (کی روایت میں خرچ کرے کے بجائے جب عورت کھلائے ہے) اور اس کی نیت مال برباد کرنے کی نہ ہو تو اس کے لیے اجر ہو گا، اور شوہر کو بھی اس کی کمائی کی وجہ سے اتنا ہی اجر ملے گا، اور عورت کو خرچ کرنے کی وجہ سے، اور خازن کو بھی اتنا ہی اجر ملے گا بغیر اس کے کہ ان کے اجر میں کچھ کمی ہو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2294]
اردو حاشہ:
فوائد  و مسائل:

(1)
گھر میں کما کر لانا مرد کا فرض ہے۔

(2)
اگرچہ کمائی مرد کی ہوتی ہے تاہم عورت کو خرچ کرنے کا پورا اختیار حاصل ہے۔

(3)
عورت کو خرچ کرتے وقت یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ مال فضول ضائع نہ کیا جائے اور ناجائز کاموں میں خرچ نہ کیا جائے، اور وہاں خرچ نہ کیا جائے۔
جہاں خاوند پسند نہ کرتا ہو کیونکہ اس سے گھر کے مالی حالات میں بھی بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور آپس کے تعلقات بھی خراب ہو جاتے ہیں۔

(4)
خزانچی سے مراد وہ شخص ہے جو مالک کی اجازت سے گھر کی ضروریات کے لیے خرچ کرتا ہے، خواہ وہ ملازم ہو یا گھر کا کوئی فرد، مثلاً:
چھوٹا بھائی یا بیٹا وغیرہ۔

(5)
خازن کو یہ ثواب اس وقت ملے گا جب وہ خوشی سے خرچ کرے، اگر وہ صرف حکم کی تعمیل کے طور پر کسی مستحق کو دیتا ہے لیکن دل میں ناراضی محسوس کرتا ہے کہ میرا مالک یہاں کیوں خرچ کرتا ہے تو اسے ثواب نہیں ملے گا کیونکہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2294   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 514  
´نفلی صدقے کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب عورت اپنے گھر کے مال سے فضول خرچی کئے بغیر خرچ کرے تو اسے خرچ کرنے کے بدلے میں اجر و ثواب ملے گا اور اس کے شوہر کیلئے کمانے کا ثواب اور اسی طرح خزانچی کیلئے بھی اجر ہے ہر ایک کا ثواب دوسرے کے ثواب میں سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 514]
لغوی تشریح 514:
غَیرَ مُفسِدَۃٍ یعنی فضول خرچی، اسراف وتبذیر کے بغیر، نیز یہ خرچ کرنا خاوند اور اس کے زیرِ کفالت افراد کے اخراجات پر اثر انداز نہ ہو۔ بیوی کو خاوند کے مال سے خرچ کرنے کی اجازت کو اس پر محمول کیا جائے گا کہ شوہر اپنی بیوی کو صریح طور پر اجازت دے دے یا اشارتًا جیسا کہ معاشرے میں یہ چیز معروف و معلوم ہے کہ خاوند کی اجازت کے بغیر معمولی چیزوں کو خیرات میں دے دینا قابلِ مؤاخذہ تصور نہیں کیا جاتا۔ ایسا سمجھاجاتا ہے کہ گویا اس کی بیوی کو اجازت دے دی گئی ہے۔

فوائد و مسائل 514:
➊ عورت کو خاوند کی اجازت کے بغیر اتنا صدقہ و خیرات نہیں کرنا چاہیے کہ خاوند کے گھر کا معاشی نظام متأثر ہو کر برباد ہو جائے اور شوہر کے لیے معاشی مشکلات اور دشواریاں کھڑی ہو جائیں۔
➋ معمولی صدقہ، مثلًا: سائل کو روٹی دے دی یا تھوڑا بہت آٹا دے دیا یا پڑوسی کو تھوڑا بہت نمک مرچ دے دی وغیرہ، اس صدقے میں بیوی کے ساتھ ساتھ اس کا شوہر کما کر لانے کی وجہ سے، خزانچی اس کی حفاظت کرنے کی وجہ سے اور خادم خدمت گاری کی بنا پر اجر و ثواب کے مستحق ہیں۔ کسی کے اجر میں سے کمی نہیں کی جائے گی، ہر ایک کو اس کا پورا پورا اجر ملے گا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 514   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1685  
´عورت کا اپنے شوہر کے مال سے صدقہ دینے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب عورت اپنے شوہر کے گھر سے کسی فساد کی نیت کے بغیر خرچ کرے تو اسے اس کا ثواب ملے گا اور مال کمانے کا ثواب اس کے شوہر کو اور خازن کو بھی اسی کے مثل ثواب ملے گا اور ان میں سے کوئی کسی کے ثواب کو کم نہیں کرے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1685]
1685. اردو حاشیہ: شوہر کی صریح اجازت نہ بھی ہوتو اس کے مزاج زوق عادت اور عرف سے سمجھی جاسکتی ہے۔ اور اس کے برعکس جہاں شوہر دینا چاہتا ہو مگر بیوی بخیل ہو۔۔۔اس کا حال خود سمجھا جاسکتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1685   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1437  
1437. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جب بیوی اپنے خاوند کی اشیائے خوردونوش سےصدقہ کرے بشرط یہ کہ گھر تباہ کرنے کی نیت نہ ہوتو اسے صدقہ کرنے کاثواب اوراس کے شوہر کو کمائی کرنے کا اجر ملے گا اور خازن کو بھی اس طرح ثواب ملے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1437]
حدیث حاشیہ:
یعنی بیوی کی خاوند کے مال کو بیکار تباہ کرنے کی نیت نہ ہوتو اس کو بھی ثواب ملے گا۔
خادم کے لیے بھی یہی حکم ہے۔
مگر بیوی اور خدمتگار میں فرق ہے۔
بیوی بغیر خاوند کی اجازت کے اس کے مال میں سے خیرات کرسکتی ہے، لیکن خدمت گار ایسا نہیں کرسکتا۔
اکثر علماء کے نزدیک بیوی کو بھی اس وقت تک خاوند کے مال سے خیرات درست نہیں جب تک اجمالاً یا تفصیلاً اس نے اجازت نہ دی ہو اور امام بخاری کے نزدیک بھی یہی مختار ہے۔
بعضوں نے کہا یہ عرف اور دستور پر موقوف ہے، یعنی بیوی پکا ہوا کھانا وغیرہ ایسی تھوڑی چیزیں جن کے دینے سے کوئی ناراض نہیں ہوتا‘ خیرات کرسکتی ہے گو خاوند کی اجازت نہ ملے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1437   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1437  
1437. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جب بیوی اپنے خاوند کی اشیائے خوردونوش سےصدقہ کرے بشرط یہ کہ گھر تباہ کرنے کی نیت نہ ہوتو اسے صدقہ کرنے کاثواب اوراس کے شوہر کو کمائی کرنے کا اجر ملے گا اور خازن کو بھی اس طرح ثواب ملے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1437]
حدیث حاشیہ:
(1)
بیوی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر مال میں تصرف کرے۔
عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ بیوی گھر کی اشیاء میں شوہر کی اجازت سے تصرف کرتی ہے جس سے اس کا شوہر خوش ہوتا ہے۔
(2)
فساد کی دو صورتیں ہیں:
٭ شوہر کی اجازت کے بغیر تصرف کرے۔
٭ اشیاء میں تصرف سے شوہر خوش نہ ہو۔
پھر بیوی اور خادم میں فرق یہ ہے کہ بیوی کا شوہر کے مال میں کچھ نہ کچھ حق ہوتا ہے، کیونکہ وہ گھر کے مال و متاع کی نگران ہے، اس لیے جائز ہے کہ وہ اسراف اور بگاڑ کے بغیر صدقہ کرے، لیکن نوکر اپنے مالک کے سامان میں تصرف کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتا، اس لیے اسے صدقہ کرنے کے لیے اجازت لینا ضروری ہے۔
امام بخاری ؒ نے اسی لیے بحکم آقا کے الفاظ ذکر کیے ہیں۔
(فتح الباري: 382/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1437