صحيح البخاري
كِتَاب الزَّكَاة -- کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
25. بَابُ أَجْرِ الْخَادِمِ إِذَا تَصَدَّقَ بِأَمْرِ صَاحِبِهِ غَيْرَ مُفْسِدٍ:
باب: خادم نوکر کا ثواب، جب وہ مالک کے حکم کے مطابق خیرات دے اور کوئی بگاڑ کی نیت نہ ہو۔
حدیث نمبر: 1438
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" الْخَازِنُ الْمُسْلِمُ الْأَمِينُ الَّذِي يُنْفِذُ، وَرُبَّمَا قَالَ: يُعْطِي مَا أُمِرَ بِهِ كَامِلًا مُوَفَّرًا طَيِّبٌ بِهِ نَفْسُهُ فَيَدْفَعُهُ إِلَى الَّذِي أُمِرَ لَهُ بِهِ أَحَدُ الْمُتَصَدِّقَيْنِ".
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ‘ ان سے برید بن عبداللہ نے ‘ ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «خازن» مسلمان امانتدار جو کچھ بھی خرچ کرتا ہے اور بعض دفعہ فرمایا وہ چیز پوری طرح دیتا ہے جس کا اسے سرمایہ کے مالک کی طرف سے حکم دیا گیا اور اس کا دل بھی اس سے خوش ہے اور اسی کو دیا ہے جسے دینے کے لیے مالک نے کہا تھا تو وہ دینے والا بھی صدقہ دینے والوں میں سے ایک ہے۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2260  
باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب تین اجزاء پر قائم ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے باب کسی نیک مرد کو مزدوری پر لگانے کے مسئلے پر قائم فرمایا ہے اور جو آیت مبارکہ پیش فرمائی ہے اس سے باب کی مناسبت ظاہر ہے، مگر حدیث جو پیش کی ہے اس میں اجارہ کا کوئی لفظ موجود نہیں ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«قال الاسماعیل: لیس فى الحدیثین جمیعا معنى الاجارۃ، وقال الداؤدی: لیس حدیث الخازن الأمین من ہذا الباب لأنہ لا ذکر للاجارۃ فیہ۔»
علامہ اسماعیلی اور داؤدی رحمہما اللہ کہتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ اس باب اجارۃ میں یہ حدیث کیوں لائے؟ جب کہ حدیث مذکورہ میں اجارہ کا کوئی بھی ذکر نہیں ہے۔ یاد رہے کہ ترجمۃ الباب تین اجزاء پر قائم ہے:
① نیک مرد کو مزدوری پر لگانا۔
② الخازن الامین یعنی خزانچی جو امین ہو۔
③ اس کو استعمال نہ کیا جائے جو خود ارادہ رکھتا ہو۔
پہلے جزء کے لیے قرآن مجید کی آیت پیش فرمائی جس سے مناسبت واضح ہے۔
دوسرے جزء کے لیے سیدنا ابوموسی الاشعری رضی اللہ عنہ کی حدیث پیش فرمائی، جس کے بارے میں امام اسماعیلی اور داؤدی نے اعتراض کیا ہے، ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کے لیے، اور ان دونوں بزرگوں کے اعتراض کو دور کرنے کے لیے علامہ ابن التین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«إنما أراد البخاری أن الخازن لا شیئ لہ فى المال وإنما ہو أجیر» [فتح الباری، ج 5، ص: 379]
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد وہ خازن ہے کہ جمع شدہ مال میں اس کی اپنی کوئی چیز نہ ہو اور ظاہر ہے کہ وہ اجیر ہی ہوا کرتا ہے۔
علامہ کرمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
«ودخول ہذا الحدیث فى باب الإجارۃ للاشارۃ إلى أن خازن مال الغیر کالأجیر لصاحب المال۔» [الکواکب الدرادی، ج 10، ص: 97]
امام بخاری رحمہ اللہ کا اس باب میں اس حدیث کا داخل کرنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خازن وہ ہوتا ہے جو غیر کے مال پر رکھا جاتا ہے، جیسے کہ مزدور صاحب مال کے لیے۔
بعین قریب قریب یہی مناسبت ابن بطال رحمہ اللہ نے بھی دی ہے، آپ رقمطراز ہیں:
«إنما أدخلہ فى ہذا الباب، لأن من المستوجر على شیئ فہو أمین فیہ، ولیس علیہ شیئ من ضمان أن فسد أو تلف، إلا إن کان بتضییعہ۔» [شرح ابن بطل، ج 6، ص: 385]
ان اقتباسات سے واضح طور پر ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ظاہر ہوتی ہے۔
ترجمۃ الباب کا تیسرا جزء جسے علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ نے لب اللباب میں ذکر فرمایا کہ:
تیسرے جزء کی مناسبت ترجمۃ الباب سے ان الفاظوں کے ساتھ ہے: «ومن لم یستعمل من أرادہ» [لب اللباب، ج 2، ص187]
ضروری وضاحت:
امام بخاری رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث کے ذریعے یہ سمجھانے کی کو شش فرما رہے ہیں کہ آدمی اپنے آپ کو اجیر بننے کے لیے پیش کرے اور دوسرا شخص اس کو اجیر رکھنے سے انکار کرے تو اس کی اصل بھی سنت میں موجود ہے۔
لیکن یہ قانون نہیں ہے، بسا اوقات اگر کوئی شخص خود درخواست کرے تو اس کی درخواست قبول بھی کی جا سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:
« ﴿اجْعَلْنِی عَلَى خَزَائِنِ الْأَرْضِ إِنِّی حَفِیظٌ عَلِیمٌ﴾ » [یوسف: 55] آپ مجھے ملک کے خزانوں پر مقرر کر دیجئے، میں حفاظت کرنے والا اور باخبر ہوں۔
صاحب الابواب والتراجم لکھتے ہیں کہ:
«وقد سأل بعض أصحاب النبى صلى اللہ علیہ وسلم الامامۃ فقال: اجعلنی امام قومی، فقال أنت امامہم واقتد بأضعفہم» [سنن أبى داؤد، رقم الحدیث: 531]
یقیناً بعض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ آپ ہمیں اپنی قوم کا امام مقرر کر دیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آپ ان کے امام ہیں اور ان کے ضعیف ترین کی اقتدا (رعایت) کرنا۔ [الأبواب والتراجم، ج 3، ص: 665] واللہ اعلم
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 332   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1684  
´خازن (خزانچی) کے ثواب کا بیان۔`
ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امانت دار خازن جو حکم کے مطابق پورا پورا خوشی خوشی اس شخص کو دیتا ہے جس کے لیے حکم دیا گیا ہے تو وہ بھی صدقہ کرنے والوں میں سے ایک ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1684]
1684. اردو حاشیہ: ایسے خازن کےلئے مسلمان ہونے کے علاوہ چار شرطیں زکر کی گئی ہیں۔مالک کی اجازت خوشی سے دینا۔پورا پورا دینا اسے دینا جس کے بارے میں حکمدیا گیا۔نیز یہ بھی معلوم ہواکہ صدقہ کرنے والے کو اصل مالک کی ہدایات پر پورا پورا عمل کرنا چاہیے۔بغیر معقول عذر کے ان میں تبدیلی نہیں کرنی چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1684   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1438  
1438. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:وہ مسلمان خزانچی جو امانت دار ہو خوشی سے بلا کم وکاست اپنے آقا کاحکم نافذ کردے اورجس چیز کا آدمی کو دینے کا حکم دیا گیا ہے اس کے حوالے کردے تو وہ بھی خیرات کرنے والوں میں سے ایک ہوگا۔ کبھی آپ ينفذ کی بجائے يعطي کا لفظ فرماتے، یعنی چیز دے دے(جس آدمی کو دینے کا حکم دیا گیا ہےاسے)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1438]
حدیث حاشیہ:
(1)
صاحب مال اور اس کے حکم کی بجا آوری کرنے والا دونوں ثواب میں شریک ہوں گے، فرق یہ ہو گا کہ خادم کو اضافی ثواب نہیں ملے گا جبکہ مالک کو دس گناہ اضافی ثواب بھی دیا جائے گا۔
(2)
اس حدیث میں نوکر یا خازن کو ثواب ملنے کی چند ایک شرائط بیان ہوئی ہیں:
٭ پہلی یہ کہ وہ مسلمان ہو کیونکہ کافر کی نیت کا اعتبار نہیں۔
٭ دوسری یہ کہ وہ امانت دار ہو کیونکہ خیانت پیشہ ثواب سے محروم ہو گا۔
٭ تیسری یہ کہ وہ حکم کی بجا آوری کرنے والا ہو اس میں کمی بیشی کا مرتکب نہ ہو۔
٭ چوتھی یہ کہ وہ خوشی سے صدقہ کرے، کیونکہ دل کی گھٹن سے ثواب ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔
٭ پانچویں یہ کہ وہ مالک کے حکم کے مطابق اسی کو صدقہ دے جسے دینے کا حکم دیا گیا ہے۔
حصول ثواب کے لیے مذکورہ شرائط کو ملحوظ رکھنا ہو گا۔
(فتح الباري: 382/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1438