سنن ابي داود
أبواب تفريع استفتاح الصلاة -- ابواب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل
172. باب رَدِّ السَّلاَمِ فِي الصَّلاَةِ
باب: نماز میں سلام کا جواب دینا۔
حدیث نمبر: 923
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنَّا نُسَلِّمُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ" فَيَرُدُّ عَلَيْنَا"، فَلَمَّا رَجَعْنَا مِنْ عِنْدِ النَّجَاشِيِّ سَلَّمْنَا عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْنَا، وَقَالَ: إِنَّ فِي الصَّلَاةِ لَشُغْلًا.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتے اس حال میں کہ آپ نماز میں ہوتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سلام کا جواب دیتے تھے، لیکن جب ہم نجاشی (بادشاہ حبشہ) کے پاس سے لوٹ کر آئے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تو آپ نے سلام کا جواب نہیں دیا اور فرمایا: نماز (خود) ایک شغل ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/العمل في الصلاة 3 (1201)، 15 (1216)، مناقب الأنصار 37 (3875)، صحیح مسلم/المساجد 7 (538)، ن الکبری / السھو 99 (540)، (تحفة الأشراف: 9418)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 59 (1019)، مسند احمد (1/ 176، 177، 409، 415، 435، 462) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1216  
´نماز میں زبان سے سلام کا جواب لوٹانا منسوخ ہے`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ:" كُنْتُ أُسَلِّمُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ فَيَرُدُّ عَلَيَّ، فَلَمَّا رَجَعْنَا سَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ وَقَالَ: إِنَّ فِي الصَّلَاةِ لَشُغْلًا . . .»
. . . عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ (ابتداء اسلام میں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں ہوتے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب دیتے تھے۔ مگر جب ہم (حبشہ سے جہاں ہجرت کی تھی) واپس آئے تو میں نے (پہلے کی طرح نماز میں) سلام کیا۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا (کیونکہ اب نماز میں بات چیت وغیرہ کی ممانعت نازل ہو گئی تھی) اور فرمایا کہ نماز میں اس سے مشغولیت ہوتی ہے . . . [صحيح البخاري/كتاب العمل في الصلاة: 1216]

فقہ الحدیث
↰ یہ حدیث دلیل ہے کہ نماز میں زبان سے سلام کا جواب لوٹانا منسوخ ہے، اس سے ہاتھ کے اشارے سے سلام کا جواب لوٹانے کی نفی نہیں ہوتی، بلکہ اس کا جواز دوسری صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 16، حدیث/صفحہ نمبر: 17   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 923  
´نماز میں سلام کا جواب دینا۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتے اس حال میں کہ آپ نماز میں ہوتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سلام کا جواب دیتے تھے، لیکن جب ہم نجاشی (بادشاہ حبشہ) کے پاس سے لوٹ کر آئے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تو آپ نے سلام کا جواب نہیں دیا اور فرمایا: نماز (خود) ایک شغل ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 923]
923۔ اردو حاشیہ:
➊ نماز میں قرات قرآن، اللہ کا ذکر اور دعا میں مشغولیت ہوتی ہے اس لئے کسی اور طرف متوجہ ہونا مناسب نہیں سوائے اس کے جس کی رخصت آئی ہے۔
➋ دوران نماز میں عمداً بات کرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 923