صحيح البخاري
كِتَاب الزَّكَاة -- کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
44. بَابُ الزَّكَاةِ عَلَى الأَقَارِبِ:
باب: اپنے رشتہ داروں کو زکوٰۃ دینا۔
حدیث نمبر: 1462
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , قَالَ: أَخْبَرَنِي زَيْدٌ هُوَ ابْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَضْحًى أَوْ فِطْرٍ إِلَى الْمُصَلَّى، ثُمَّ انْصَرَفَ فَوَعَظَ النَّاسَ وَأَمَرَهُمْ بِالصَّدَقَةِ , فَقَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ تَصَدَّقُوا، فَمَرَّ عَلَى النِّسَاءِ , فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ تَصَدَّقْنَ فَإِنِّي رَأَيْتُكُنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ، فَقُلْنَ: وَبِمَ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: تُكْثِرْنَ اللَّعْنَ وَتَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ، مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الْحَازِمِ مِنْ إِحْدَاكُنَّ يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ، ثُمَّ انْصَرَفَ فَلَمَّا صَارَ إِلَى مَنْزِلِهِ جَاءَتْ زَيْنَبُ امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ تَسْتَأْذِنُ عَلَيْهِ، فَقِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ: هَذِهِ زَيْنَبُ، فَقَالَ: أَيُّ الزَّيَانِبِ، فَقِيلَ: امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: نَعَمْ ائْذَنُوا لَهَا، فَأُذِنَ لَهَا، قَالَتْ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ إِنَّكَ أَمَرْتَ الْيَوْمَ بِالصَّدَقَةِ وَكَانَ عِنْدِي حُلِيٌّ لِي فَأَرَدْتُ أَنْ أَتَصَدَّقَ بِهِ، فَزَعَمَ ابْنُ مَسْعُودٍ أَنَّهُ وَوَلَدَهُ أَحَقُّ مَنْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَدَقَ ابْنُ مَسْعُودٍ زَوْجُكِ وَوَلَدُكِ أَحَقُّ مَنْ تَصَدَّقْتِ بِهِ عَلَيْهِمْ".
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں محمد بن جعفر نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ مجھے زید بن اسلم نے خبر دی ‘ انہیں عیاض بن عبداللہ نے ‘ اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ‘ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحی یا عیدالفطر میں عیدگاہ تشریف لے گئے۔ پھر (نماز کے بعد) لوگوں کو وعظ فرمایا اور صدقہ کا حکم دیا۔ فرمایا: لوگو! صدقہ دو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کی طرف گئے اور ان سے بھی یہی فرمایا کہ عورتو! صدقہ دو کہ میں نے جہنم میں بکثرت تم ہی کو دیکھا ہے۔ عورتوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! ایسا کیوں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ اس لیے کہ تم لعن وطعن زیادہ کرتی ہو اور اپنے شوہر کی ناشکری کرتی ہو۔ میں نے تم سے زیادہ عقل اور دین کے اعتبار سے ناقص ایسی کوئی مخلوق نہیں دیکھی جو کار آزمودہ مرد کی عقل کو بھی اپنی مٹھی میں لے لیتی ہو۔ ہاں اے عورتو! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس گھر پہنچے تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا آئیں اور اجازت چاہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ یہ زینب آئی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کون سی زینب (کیونکہ زینب نام کی بہت سی عورتیں تھیں) کہا گیا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اچھا انہیں اجازت دے دو ‘ چنانچہ اجازت دے دی گئی۔ انہوں نے آ کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آج آپ نے صدقہ کا حکم دیا تھا۔ اور میرے پاس بھی کچھ زیور ہے جسے میں صدقہ کرنا چاہتی تھی۔ لیکن (میرے خاوند) ابن مسعود رضی اللہ عنہ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اور ان کے لڑکے اس کے ان (مسکینوں) سے زیادہ مستحق ہیں جن پر میں صدقہ کروں گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے صحیح کہا۔ تمہارے شوہر اور تمہارے لڑکے اس صدقہ کے ان سے زیادہ مستحق ہیں جنہیں تم صدقہ کے طور پر دو گی۔ (معلوم ہوا کہ اقارب اگر محتاج ہوں تو صدقہ کے اولین مستحق وہی ہیں)۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 125  
´حائضہ کے لیے ترک صلاۃ و صوم `
«. . . وعن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏اليس إذا حاضت المراة لم تصل ولم تصم . . .»
. . . سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ کیا عورت جب حالت حیض میں ہوتی ہے تو نماز اور روزہ چھوڑ نہیں دیتی . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 125]
لغوی تشریح:
«أَلَيْسَ» اس میں ہمزہ انکار کے لیے ہے۔ جب نفی کا انکار ہو تو اثبات ثابت ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں معنی یہ ہوئے کہ شریعت میں ایسی عورت کے لیے ترک صلاۃ و صوم ثابت ہے، البتہ دیگر دلائل کی رو سے روزوں کی قضا دوسرے ایام میں ادا کرے گی جبکہ نماز کی قضا نہیں، اس لیے کہ اس قضا کا ادا کرنا عورت کے لیے نہایت مشکل ہے اور یہ عورت کے حق میں ثابت بھی نہیں ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 125   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 304  
´عورت حائضہ ہو تو نہ نماز پڑھ سکتی ہے نہ روزہ رکھ سکتی ہے`
«. . . قَالَ: أَلَيْسَ شَهَادَةُ الْمَرْأَةِ مِثْلَ نِصْفِ شَهَادَةِ الرَّجُلِ؟ قُلْنَ: بَلَى، قَالَ: فَذَلِكِ مِنْ نُقْصَانِ عَقْلِهَا، أَلَيْسَ إِذَا حَاضَتْ لَمْ تُصَلِّ وَلَمْ تَصُمْ؟ قُلْنَ: بَلَى، قَالَ: فَذَلِكِ مِنْ نُقْصَانِ دِينِهَا . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا عورت کی گواہی مرد کی گواہی سے نصف نہیں ہے؟ انہوں نے کہا، جی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بس یہی اس کی عقل کا نقصان ہے۔ پھر آپ نے پوچھا کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت حائضہ ہو تو نہ نماز پڑھ سکتی ہے نہ روزہ رکھ سکتی ہے، عورتوں نے کہا ایسا ہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی اس کے دین کا نقصان ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ: 304]

لغوی توضیح:
«اُرِيْتُكُنَّ» مجھے دکھایا گیا ہے (یعنی معراج کی رات)۔
«تَكْفُرْنَ الْعَشِيْرَ» شوہر کی ناشکری کرتی ہو۔
«لُبّ» عقل۔
«الْحَازم» مضبوط و ضابط شخص۔

فہم الحدیث:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورتوں کا دین اور عقل مردوں سے کم ہے۔ یاد رہے کہ یہ بات مجموعی اعتبار سے ہے کیونکہ انفرادی اعتبار سے یہ ممکن ہے کہ بہت سی عورتیں بہت سے مردوں سے زیادہ عقل مند اور دین پر عمل پیرا ہوں۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جہنم میں عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہو گی۔ لہٰذا خواتین کو ایک تو شوہروں کی نافرمانی و ناشکری سے بچنا چاہئیے اور دوسرے زیادہ سے زیادہ صدقہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ صدقہ آتش جہنم سے بچاؤ کا ذریعہ ہے جیسا کہ فرمان نبوی ہے کہ آگ سے بچو خواہ کھجور کی گٹھلی صدقہ کر کے ہی۔ [بخاري: كتاب الزكاة: بَابُ اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ: 1417]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 49   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 19  
´عورتوں کونصیحتیں`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَضْحًى أَوْ فِطْرٍ إِلَى الْمُصَلَّى فَمَرَّ عَلَى النِّسَاءِ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ تَصَدَّقْنَ فَإِنِي أُرِيتُكُنَّ أَكْثَرَ - [14] - أَهْلِ النَّارِ فَقُلْنَ وَبِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ تُكْثِرْنَ اللَّعْنَ وَتَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَذْهَبَ لِلُبِّ الرجل الحازم من إحداكن قُلْنَ وَمَا نُقْصَانُ دِينِنَا وَعَقْلِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ أَلَيْسَ شَهَادَةُ الْمَرْأَةِ مِثْلَ نِصْفِ شَهَادَةِ الرَّجُلِ قُلْنَ بَلَى قَالَ فَذَلِكَ مِنْ نُقْصَان عقلهَا أَلَيْسَ إِذَا حَاضَتْ لَمْ تَصِلِّ وَلَمْ تَصُمْ قُلْنَ بَلَى قَالَ فَذَلِكَ مِنْ نُقْصَانِ دِينِهَا . . .»
. . . سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بقرہ عید یا عیدالفطر میں عیدگاہ کی طرف نکلے تو عورتوں کے پاس سے آپ کا گزر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان عورتوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اے عورتوں کی جماعت! تم لوگ صدقہ و خیرات کرو کیونکہ مجھے دکھایا گیا ہے کہ تم دوزخ میں زیادہ جانے والی ہو۔ (یعنی عورتیں زیادہ تر دوزخ میں داخل ہوں گی۔) ان عورتوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! عورتیں کس وجہ سے دوزخ میں زیادہ تر داخل ہوں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لعن و طعن زیادہ کرتی ہو اور اپنے خاوندوں کی نافرمانی اور ناشکری بہت کرتی ہو، دین و عقل کی کمی تم لوگوں سے زیادہ کسی میں نہیں دیکھی ہے کہ تم سب سے زیادہ بےعقل بھی ہو اور تم لوگوں کا دین بھی ناقص ہے کہ ہوشیار اور سمجھدار آدمی کی عقل کو کھو دیتی ہو۔ ان عورتوں نے کہا: یا رسول اللہ! ہمارے دین اور ہماری عقل کی کیا کمی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا ایک عورت کی گواہی ایک مرد کے نصف گواہی کے برابر نہیں ہے (یعنی شریعت میں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے) ان عورتوں نے کہا: ہاں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ان کی عقل کی کمی کی وجہ سے ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا جس وقت عورت ماہواری کی حالت میں ہوتی ہے تو نماز نہیں پڑھتی اور نہ روزہ رکھتی ہے؟ ان عورتوں نے کہا: ہاں ایسا ہی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ان کے دین کی کمی کا سبب ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 19]

تخریج الحدیث:
[صحیح بخاری 304]،
[صحيح مسلم 2053]

فقہ الحدیث
➊ اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ مردوں کو عورتوں پر بحیثیت مجموعی برتری حاصل ہے۔ اس کی تائید قرآن مجید سے بھی ہوتی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ»
مرد عورتوں پر نگراں ہیں۔‏‏‏‏ [سورة النساء: 34]
➋ نماز دین اسلام کا ایک (یعنی دوسرا) بنیادی رکن ہے، چونکہ نماز عمل کا نام ہے، لہٰذا ثابت ہوا کہ نماز اعمال دین (یعنی ایمان) میں سے ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ»
اور اللہ تمہارے ایمان (یعنی نمازیں) ضائع نہیں کرے گا۔ [سورة البقرة:143]
➌ عورت ایام حیض میں نہ نماز پڑھ سکتی ہے اور نہ روزہ رکھ سکتی ہے۔ اس کے لئے دین کے یہ دونوں کام، اس حالت میں ممنوع ہیں۔ دوسرے دلائل سے یہ ثابت ہے کہ ایام حیض گزرنے کے بعد وہ روزوں کی قضا تو کرے گی، لیکن نماز کی قضا نہیں کرے گی۔
➍ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کب عورتوں کو جہنم میں دیکھا تھا؟ اس کا ذکر سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج گرہن والی نماز کے دوران میں عورتوں کو جہنم میں دیکھا تھا۔ دیکھئے: [صحيح بخاري 1052، وصحيح مسلم 907/17، اضوء المصابيح 1482]
تنبیہ:
ایک روایت میں آیا ہے کہ ہر آدمی کو بہتر 72 حوریں اور سیدنا آدم علیہ السلام کی اولاد سے دو عورتیں ملیں گی۔ [مسند ابي يعلي بحواله النهاية فى الفتن والملاحم 1؍177 ح498 بتحقيقي، وتحقيق ثاني ح: 53 والمطولات للطبراني ح: 36/المعجم الكبير 25؍276]
اس سے معلوم ہوا کہ جنت میں عورتیں مردوں کی نسبت زیادہ ہوں گی۔
↰ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ روایت سخت ضعیف ہے، اس کا راوی اسماعیل بن رافع ضعیف ہے۔
↰ حافظ ابن حجر نے کہا: «ضعيف الحفظ» [تقريب التهذيب: 442]
↰ اس روایت کی سند متصل نہیں ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا: «لا يصح» یہ صحیح نہیں ہے۔ [الكامل لابن عدي 1؍278 وسنده صحيح]
➎ اس حدیث سے صاف ثابت ہے کہ مرد کے مقابلے میں عورت کی گواہی آدھی ہے۔ یعنی ایک مرد کے مقابلے میں دو عورتوں کی گواہی ہے۔ اس کی تائید قرآن مجید کی آیت سے بھی ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ»
پس اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتوں (کی گواہی پیش کرو۔) [سورة البقره: 282]
تنبیہ: جن امور کا تعلق خاص عورت سے ہے مثلاً بچے کو دودھ پلانا وغیرہ تو اس میں ایک عورت کی گواہی بھی مقبول ہے اور اسی طرح قبول روایت میں ایک ثقہ عورت کی گواہی مقبول ہے۔
➏ مسلمان کا مسلمان پر لعنت بھیجنا حرام ہے، اگرچہ جس پر لعنت بھیجی جا رہی ہے وہ گنہگار ہی کیوں نہ ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک شرابی پر کسی نے لعنت بھیجی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا تلعنوه» اس پر لعنت نہ بھیجو۔‏‏‏‏ [صحيح البخاري: 6780]
اس پر علماء کا اتفاق ہے کہ متعین زندہ کافر پر بھی لعنت بھیجنا جائز نہیں ہے۔ اگر کافر مر جائے اور اس بات کا یقینی ثبوت ہو کہ وہ کفر پر مرا ہے تو پھر اس پر لعنت بھیجنا جائز ہے، جیسے ابوجہل اور ابولہب وغیرہ کافروں پر لعنت بھیجنا بالاجماع جائز ہے۔ کسی متعین انسان کا نام لئے بغیر عام لعنت بھیجی جا سکتی ہے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرابی اور سودی پر لعنت بھیجی ہے۔ دیکھئے: [سنن ابي داود 3478 وصحيح مسلم 1598، 1597]
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 19   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1288  
´عیدین میں خطبے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن نکلتے اور لوگوں کو دو رکعت پڑھاتے، پھر سلام پھیرتے، اور اپنے قدموں پر کھڑے ہو کر لوگوں کی جانب رخ کرتے، اور لوگ بیٹھے رہتے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: لوگو! صدقہ کرو، صدقہ کرو، زیادہ صدقہ عورتیں دیتیں، کوئی بالی ڈالتی، کوئی انگوٹھی اور کوئی کچھ اور، اگر آپ کو لشکر بھیجنا ہوتا تو لوگوں سے اس کا ذکر کرتے، ورنہ تشریف لے جاتے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1288]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
عید کی نماز مسجد کے بجائے کھلے میدان میں ادا کرنی چاہیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم جیسی افضل ترین جگہ چھوڑ کر میدان میں نماز عید ادا کی۔

(2)
خطبہ عید کی نماز کے بعد دینا چاہیے۔

(3)
  عید کا خطبہ منبر پر نہیں زمین پر کھڑے ہوکر ہی دینا چاہیے۔

(4)
خطبے میں حالات کے مطابق مناسب مسائل بیان کرنے چاہیں۔

(5)
عورت اپنی ذاتی چیز خاوند کی اجازت کے بغیر صدقہ کرسکتی ہے۔

(6)
خطبہ اطمینان سے بیٹھ کرسننا چاہیے۔
تاہم کوئی شخص اٹھ جائے تو جائز ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1288   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1462  
1462. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ عید الاضحیٰ یا عید الفطر کے دن عیدگاہ تشریف لے گئے، جب نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کو وعظ و نصیحت کی اور انھیں صدقہ کرنے کا حکم دیا، فرمایا:لوگو! صدقہ کیا کرو۔ پھر عورتوں کےپاس گئے اورفرمایا:اے عورتوں کی جماعت!صدقہ کرو، میں نے تمھیں بکثرت جہنم میں دیکھا ہے۔ انھوں نے عرض کیا:اللہ کے رسول اللہ ﷺ!ایسا کیوں ہے؟آپ نے فرمایا:تم لعن و طعن بہت کرتی ہواور اپنے شوہروں کی نافرمانی کرتی ہو، اے عورتو!میں نے عقل ودین میں تم سے زیادہ ناقص کسی کو نہیں دیکھا جو بڑے زیرک ودانا کی عقل کو مضمحل کردے۔ پھر آپ ﷺ واپس ہوئے، جب گھر تشریف لائےتو ابن مسعود ؓ کی بیوی حضرت زینب ؓ آئیں اور آپ کے پاس حاضر ہونے کی اجازت مانگی، چنانچہ عرض کیا گیا:اللہ کے رسول اللہ ﷺ!زینب آئی ہیں۔ آپ نے دریافت فرمایا: کون سی زینب؟ عرض کیا گیا: ابن مسعود ؓ کی بیوی۔ آپ نے فرمایا:اچھا!انھیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1462]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بیوی اپنے نادار خاوند اور ماں اپنے مفلس بچوں پر خیرات کر سکتی ہے اور انہیں زکاۃ بھی دے سکتی ہے۔
حضرت زینب ؓ کا زیورات کے متعلق سوال کرنا اس بات کا قرینہ ہے کہ یہ فرض زکاۃ کے بارے میں تھا۔
اگر اسے نفلی صدقہ پر محمول کر لیا جائے تو امام بخاری ؒ نے اس پر فرض صدقہ کو قیاس کیا ہے۔
(2)
حضرت زینب کا دوسرا نام رائطہ ہے۔
ان کے متعلق ایک اور واقعہ بھی احادیث میں منقول ہے کہ یہ دستکاری کی ماہر تھیں اور اسے انہوں نے ذریعہ معاش بنایا تھا۔
اس کمائی سے وہ حضرت عبداللہ بن مسعود اور ان کے بچوں پر خرچ کرتی تھیں۔
ایک دن انہوں نے کہا:
ایسے حالات میں صدقہ و خیرات کے لیے کچھ بھی پس انداز نہیں ہوتا، نہ کسی دوسرے پر خیرات کرنے کا موقع ہی ملتا ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا کہ اگر تجھے اس سے ثواب کی امید نہیں تو بلاشبہ ہم پر خرچ کرنا چھوڑ دو، چنانچہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئیں اور عرض کیا:
اللہ کے رسول! کیا ان پر خرچ کرنے سے مجھے کوئی اجر ملے گا؟ آپ نے فرمایا:
ان پر خرچ کرتی رہو تمہیں اس پر اجروثواب ضرور ملے گا۔
(مسندأحمد: 503/3) (3)
روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ٹانگوں سے کچھ معذور تھے اور زیادہ محنت و مزدوری کرنے کے قابل نہ تھے، اس لیے ان کی بیوی گھر کے اخراجات پورے کرتی تھی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1462