سنن ابي داود
أبواب تفريع استفتاح الصلاة -- ابواب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل
197. باب السَّهْوِ فِي السَّجْدَتَيْنِ
باب: سجدہ سہو کا بیان۔
حدیث نمبر: 1008
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِحْدَى صَلَاتَيِ الْعَشِيِّ الظُّهْرَ أَوِ الْعَصْرَ، قَالَ: فَصَلَّى بِنَا رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ قَامَ إِلَى خَشَبَةٍ فِي مُقَدَّمِ الْمَسْجِدِ، فَوَضَعَ يَدَيْهِ عَلَيْهِمَا إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى يُعْرَفُ فِي وَجْهِهِ الْغَضَبُ، ثُمَّ خَرَجَ سَرْعَانُ النَّاسِ وَهُمْ يَقُولُونَ قُصِرَتِ الصَّلَاةُ قُصِرَتِ الصَّلَاةُ وَفِي النَّاسِ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ فَهَابَاهُ أَنْ يُكَلِّمَاهُ، فَقَامَ رَجُلٌ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَمِّيهِ: ذَا الْيَدَيْنِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَسِيتَ أَمْ قُصُرَتِ الصَّلَاةُ؟ قَالَ:" لَمْ أَنْسَ، وَلَمْ تُقْصَرِ الصَّلَاةُ" قَالَ: بَلْ نَسِيتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْقَوْمِ، فَقَالَ:" أَصَدَقَ ذُو الْيَدَيْنِ؟" فَأَوْمَئُوا، أَيْ نَعَمْ،" فَرَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى مَقَامِهِ فَصَلَّى الرَّكْعَتَيْنِ الْبَاقِيَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ كَبَّرَ وَسَجَدَ مِثْلَ سُجُودِهِ أَوْ أَطْوَلَ، ثُمَّ رَفَعَ وَكَبَّرَ، ثُمَّ كَبَّرَ وَسَجَدَ مِثْلَ سُجُودِهِ أَوْ أَطْوَلَ، ثُمَّ رَفَعَ وَكَبَّرَ". قَالَ: فَقِيلَ لِمُحَمَّدٍ: سَلَّمَ فِي السَّهْوِ، فَقَالَ: لَمْ أَحْفَظْهُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَلَكِنْ نُبِّئْتُ أَنَّ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ، قَالَ: ثُمَّ سَلَّمَ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں شام کی دونوں یعنی ظہر اور عصر میں سے کوئی نماز پڑھائی مگر صرف دو رکعتیں پڑھا کر آپ نے سلام پھیر دیا، پھر مسجد کے اگلے حصہ میں لگی ہوئی ایک لکڑی کے پاس اٹھ کر گئے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو ایک دوسرے پر رکھ کر لکڑی پر رکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر غصہ کا اثر ظاہر ہو رہا تھا، پھر جلد باز لوگ یہ کہتے ہوئے نکل گئے کہ نماز کم کر دی گئی ہے، نماز کم کر دی گئی ہے، لوگوں میں ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما بھی موجود تھے لیکن وہ دونوں آپ سے (اس سلسلہ میں) بات کرنے سے ڈرے، پھر ایک شخص کھڑا ہوا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالیدین کہا کرتے تھے، اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ بھول گئے ہیں یا نماز کم کر دی گئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ میں بھولا ہوں، نہ ہی نماز کم کی گئی ہے، اس شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ بھول گئے ہیں، پھر آپ لوگوں کی جانب متوجہ ہوئے اور ان سے پوچھا: کیا ذوالیدین سچ کہہ رہے ہیں؟، لوگوں نے اشارہ سے کہا: ہاں ایسا ہی ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ پر واپس آئے اور باقی دونوں رکعتیں پڑھائیں، پھر سلام پھیرا، اس کے بعد «الله أكبر» کہہ کر اپنے اور سجدوں کی طرح یا ان سے کچھ لمبا سجدہ کیا، پھر «الله أكبر» کہہ کر سجدے سے سر اٹھایا پھر «الله أكبر» کہہ کر اپنے اور سجدوں کی طرح یا ان سے کچھ لمبا دوسرا سجدہ کیا پھر «الله أكبر» کہہ کر اٹھے۔ راوی کہتے ہیں: تو محمد سے پوچھا گیا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ سہو کے بعد پھر سلام پھیرا؟ انہوں نے کہا: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مجھے یہ یاد نہیں، لیکن مجھے خبر ملی ہے کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے کہا ہے: آپ نے پھر سلام پھیرا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/المساجد 19 (573)، (تحفة الأشراف: 14415)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصلاة 88 (482)، والأذان 69 (714)، والسھو 3 (1227)، 4 (1228)، 85 (1367)، والأدب 45 (6051)، وأخبار الآحاد 1 (7250)، سنن الترمذی/الصلاة 180 (399)، سنن النسائی/السھو 22 (1225)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 134 (1214)، مسند احمد (2/237، 284) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1008  
´سجدہ سہو کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں شام کی دونوں یعنی ظہر اور عصر میں سے کوئی نماز پڑھائی مگر صرف دو رکعتیں پڑھا کر آپ نے سلام پھیر دیا، پھر مسجد کے اگلے حصہ میں لگی ہوئی ایک لکڑی کے پاس اٹھ کر گئے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو ایک دوسرے پر رکھ کر لکڑی پر رکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر غصہ کا اثر ظاہر ہو رہا تھا، پھر جلد باز لوگ یہ کہتے ہوئے نکل گئے کہ نماز کم کر دی گئی ہے، نماز کم کر دی گئی ہے، لوگوں میں ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما بھی موجود تھے لیکن وہ دونوں آپ سے (اس سلسلہ میں) بات کرنے سے ڈرے، پھر ایک شخص کھڑا ہوا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالیدین کہا کرتے تھے، اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ بھول گئے ہیں یا نماز کم کر دی گئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ میں بھولا ہوں، نہ ہی نماز کم کی گئی ہے، اس شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ بھول گئے ہیں، پھر آپ لوگوں کی جانب متوجہ ہوئے اور ان سے پوچھا: کیا ذوالیدین سچ کہہ رہے ہیں؟، لوگوں نے اشارہ سے کہا: ہاں ایسا ہی ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ پر واپس آئے اور باقی دونوں رکعتیں پڑھائیں، پھر سلام پھیرا، اس کے بعد «الله أكبر» کہہ کر اپنے اور سجدوں کی طرح یا ان سے کچھ لمبا سجدہ کیا، پھر «الله أكبر» کہہ کر سجدے سے سر اٹھایا پھر «الله أكبر» کہہ کر اپنے اور سجدوں کی طرح یا ان سے کچھ لمبا دوسرا سجدہ کیا پھر «الله أكبر» کہہ کر اٹھے۔ راوی کہتے ہیں: تو محمد سے پوچھا گیا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ سہو کے بعد پھر سلام پھیرا؟ انہوں نے کہا: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مجھے یہ یاد نہیں، لیکن مجھے خبر ملی ہے کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے کہا ہے: آپ نے پھر سلام پھیرا۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 1008]
1008۔ اردو حاشیہ:
➊ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چند ایک مواقع پر نسیان ہوا ہے تاکہ امت کے لئے شریعت کے اصول واضح ہو جائیں۔
➋ ذوالیدین کا نام (خریاق) آیا ہے۔ اور اس قسم کے القاب میں اگر تحقیر مقصود نہ ہو تو مذاحاً جائز ہیں۔
➌ نماز میں زیادہ سہو ہو جائیں تو بھی دو سجدے کرنے ہوں گے، جیسے کہ اس حدیث میں آیا ہے کہ دو ر کعتوں پر سلام پھیرا، پھر تشریف لے گئے اور گفتگو فرمائی۔
➍ نسیان میں کیا جانے والا دعویٰ جھوٹ شمار نہیں ہوتا۔
➎ سجدہ سہو میں تکبیر بھی ہے اور سلام بھی۔
➏ بھول کر کلام کرنے سے نماز باطل ہوتی ہے نہ مکمل سمجھ کر سلام پھیر دینے سے۔
➐ ایسی صورت میں نماز کی بنا کرنا درست ہے۔ یعنی ساری نماز دوبارہ نہیں پڑھی جائے گی بلکہ صرف بقیہ رکعتیں پڑھ کر سہو کے دو سجدے کیے جائیں گے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1008