صحيح البخاري
كِتَاب الزَّكَاة -- کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
50. بَابُ الاِسْتِعْفَافِ عَنِ الْمَسْأَلَةِ:
باب: سوال سے بچنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1472
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:" سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي , ثُمَّ قَالَ: يَا حَكِيمُ إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ، فَمَنْ أَخَذَهُ بِسَخَاوَةِ نَفْسٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ الْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى، قَالَ حَكِيمٌ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا أَرْزَأُ أَحَدًا بَعْدَكَ شَيْئًا حَتَّى أُفَارِقَ الدُّنْيَا، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَدْعُو حَكِيمًا إِلَى الْعَطَاءِ فَيَأْبَى أَنْ يَقْبَلَهُ مِنْهُ، ثُمَّ إِنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ دَعَاهُ لِيُعْطِيَهُ فَأَبَى أَنْ يَقْبَلَ مِنْهُ شَيْئًا، فَقَالَ عُمَرُ: إِنِّي أُشْهِدُكُمْ يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى حَكِيمٍ، أَنِّي أَعْرِضُ عَلَيْهِ حَقَّهُ مِنْ هَذَا الْفَيْءِ فَيَأْبَى أَنْ يَأْخُذَهُ، فَلَمْ يَرْزَأْ حَكِيمٌ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى تُوُفِّيَ".
ہم سے عبد ان نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ کہا کہ ہمیں یونس نے خبر دی ‘ انہیں زہری نے ‘ انہیں عروہ بن زبیر اور سعید بن مسیب نے کہ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمایا۔ میں نے پھر مانگا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر عطا فرمایا۔ میں نے پھر مانگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر بھی عطا فرمایا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ اے حکیم! یہ دولت بڑی سرسبز اور بہت ہی شیریں ہے۔ لیکن جو شخص اسے اپنے دل کو سخی رکھ کر لے تو اس کی دولت میں برکت ہوتی ہے۔ اور جو لالچ کے ساتھ لیتا ہے تو اس کی دولت میں کچھ بھی برکت نہیں ہو گی۔ اس کا حال اس شخص جیسا ہو گا جو کھاتا ہے لیکن آسودہ نہیں ہوتا (یاد رکھو) اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے۔ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے کہا ‘ کہ میں نے عرض کی اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو سچائی کے ساتھ مبعوث کیا ہے۔ اب اس کے بعد میں کسی سے کوئی چیز نہیں لوں گا۔ تاآنکہ اس دنیا ہی سے میں جدا ہو جاؤں۔ چنانچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ حکیم رضی اللہ عنہ کو ان کا معمول دینے کو بلاتے تو وہ لینے سے انکار کر دیتے۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے بھی انہیں ان کا حصہ دینا چاہا تو انہوں نے اس کے لینے سے انکار کر دیا۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مسلمانو! میں تمہیں حکیم بن حزام کے معاملہ میں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کا حق انہیں دینا چاہا لیکن انہوں نے لینے سے انکار کر دیا۔ غرض حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسی طرح کسی سے بھی کوئی چیز لینے سے ہمیشہ انکار ہی کرتے رہے۔ یہاں تک کہ وفات پا گئے۔ عمر رضی اللہ عنہ مال فے یعنی ملکی آمدنی سے ان کا حصہ ان کو دینا چاہتے تھے مگر انہوں نے وہ بھی نہیں لیا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1472  
1472. حضرت حکیم بن حزام ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:میں نے ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ سے کچھ مانگا تو آپ نے مجھے دے دیا، میں نے پھر مانگا تو بھی آپ نے مجھے دے دیا، میں نے پھر مانگا تو آپ نے مجھے پھر بھی دے دیا اور اس کے بعد فرمایا:حکیم! یہ مال سبزوشریں ہے۔ جو شخص اس کو سخاوت نفس کے ساتھ لیتا ہے اسے برکت عطا ہوتی ہے۔ اور جوطمع کے ساتھ لیتا ہے۔ اس کواس میں برکت نہیں دی جاتی اور ایسا آدمی اس شخص کی طرح ہوتا ہے جو کھاتا تو ہے مگر سیر نہیں ہوتا، نیز اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ حضرت حکیم ؓ کہتے ہیں:میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول ﷺ!اس ذات کی قسم جس نے آپ کوحق دے کر بھیجا ہے!میں آپ کے بعد کسی سے کچھ نہیں مانگوں گا یہاں تک کو دنیا س چلاجاؤں۔ چنانچہ جب ابو بکر ؓ خلیفہ ہوئے تو وہ حضرت حکیم ؓ کو وظیفہ دینے کے لیے بلاتے رہے مگر انھوں نے قبول کرنے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1472]
حدیث حاشیہ:
حکیم بن حزام ؓ کی کنیت ابوخالد قریشی اسدی ہے۔
یہ حضرت ام المؤمنین خدیجۃ الکبریٰ ؓ کے بھتیجے ہیں۔
واقعہ فیل سے تیرہ سال پہلے کعبہ میں پیدا ہوئے۔
یہ قریش کے معزز ترین لوگوں میں سے ہیں۔
جاہلیت اور اسلام ہر دو زمانوں میں بڑی عزت ومنزلت کے مالک رہے۔
فتح مکہ کے دن اسلام لائے۔
64ھ میں اپنے مکان کے اندر مدینہ میں وفات پائی۔
ان کی عمر ایک سوبیس سال کی ہوئی۔
ساٹھ سال عہد جاہلیت میں گزارے اور ساٹھ سال زمانہ اسلام میں زندگی پائی۔
بڑے زیرک اور فاضل متقی صحابہ میں سے تھے زمانہ جاہلیت میں سوغلاموں کو آزاد کیا۔
اور سو اونٹ سواری کے لیے بخشے۔
وفات نبوی کے بعد یہ مدت تک زندہ رہے یہاں تک کہ معاویہ ؓ کے عہد میں بھی دس سال کی زندگی پائی۔
مگر کبھی ایک پیسہ بھی انہوں نے کسی سے نہیں لیا۔
جو بہت بڑے درجے کی بات ہے۔
اس حدیث میں حکیم انسانیت رسول کریم ﷺ نے قانع اور حریص کی مثال بیان فرمائی کہ جو بھی کوئی دنیاوی دولت کے سلسلہ میں قناعت سے کام لے گا اور حرص اور لالچ کی بیماری سے بچے گا اس کے لیے برکتوں کے دروازے کھلیں گے اور تھوڑا مال بھی اسکے لیے کافی ہوسکے گا۔
اس کی زندگی بڑے ہی اطمینان اور سکون کی زندگی ہوگی۔
اور جو شخص حرص کی بیماری اور لالچ کے بخار میں مبتلا ہوگا اس کا پیٹ بھر ہی نہیں سکتا خواہ اس کو ساری دنیا کی دولت حاصل ہوجائے وہ پھر بھی اسی چکر میں رہے گا کہ کسی نہ کسی طرح سے اور زیادہ مال حاصل کیا جائے۔
ایسے طماع لوگ نہ اللہ کے نام پر خرچ کرنا جانتے ہیں نہ مخلوق کو فائدہ پہنچانے کا جذبہ رکھتے ہیں۔
نہ کشادگی کے ساتھ اپنے اور اپنے اہل وعیال ہی پر خرچ کرتے ہیں۔
اگر سرمایہ داروں کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو ایک بہت ہی بھیانک تصویر نظرآتی ہے۔
فخر موجودات ﷺ نے ان ہی حقائق کو اس حدیث مقدس میں بیان فرمایا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1472   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1472  
1472. حضرت حکیم بن حزام ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:میں نے ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ سے کچھ مانگا تو آپ نے مجھے دے دیا، میں نے پھر مانگا تو بھی آپ نے مجھے دے دیا، میں نے پھر مانگا تو آپ نے مجھے پھر بھی دے دیا اور اس کے بعد فرمایا:حکیم! یہ مال سبزوشریں ہے۔ جو شخص اس کو سخاوت نفس کے ساتھ لیتا ہے اسے برکت عطا ہوتی ہے۔ اور جوطمع کے ساتھ لیتا ہے۔ اس کواس میں برکت نہیں دی جاتی اور ایسا آدمی اس شخص کی طرح ہوتا ہے جو کھاتا تو ہے مگر سیر نہیں ہوتا، نیز اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ حضرت حکیم ؓ کہتے ہیں:میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول ﷺ!اس ذات کی قسم جس نے آپ کوحق دے کر بھیجا ہے!میں آپ کے بعد کسی سے کچھ نہیں مانگوں گا یہاں تک کو دنیا س چلاجاؤں۔ چنانچہ جب ابو بکر ؓ خلیفہ ہوئے تو وہ حضرت حکیم ؓ کو وظیفہ دینے کے لیے بلاتے رہے مگر انھوں نے قبول کرنے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1472]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ضرورت کے بغیر کسی دوسرے سے سوال کرنا حرام ہے۔
محنت و مزدوری پر قدرت رکھنے والے کے لیے یہی حکم ہے، البتہ بعض حضرات نے تین شرائط کے ساتھ کچھ گنجائش پیدا کی ہے:
٭ اصرار نہ کرے۔
٭ اپنی عزت نفس کو مجروح نہ ہونے دے۔
٭ اور جس سے سوال کرے اسے تکلیف نہ دے۔
اگر یہ شرائط نہ ہوں تو سوال کرنا بالاتفاق حرام ہے، نیز اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے صابر اور حریص کی جزا بیان فرمائی ہے کہ جو بھی دنیوی دولت کے سلسلے میں قناعت سے کام لے گا اور حرص و لالچ کی بیماری سے خود کو بچائے گا اس کے لیے اللہ تعالیٰ برکتوں کے دروازے کھول دے گا اور تھوڑا مال بھی اس کے لیے کافی ہو سکے گا اور اس کی زندگی بڑے اطمینان اور سکون سے گزرے گی۔
اس کے برعکس جو شخص حرص اور لالچ کا شکار ہو گا اس کا پیٹ کسی صورت نہیں بھرے گا، خواہ اسے دنیا کی تمام دولت مل جائے۔
ایسے لوگ نہ تو اللہ کے نام پر کچھ دیتے ہیں اور نہ اپنی دولت سے مخلوق ہی کو فائدہ پہنچاتے ہیں بلکہ اپنے اہل و عیال پر بھی خرچ نہیں کرتے۔
(2)
موجودہ دور میں اگر سرمایہ داروں کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو بہت ہی بھیانک تصویر نظر آتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے دنیا کے مال کو خوشگوار اور شیریں قرار دیا ہے، خوشگوار مال دیکھنے میں مرغوب اور شیریں مال چمک دمک میں پسندیدہ ہوتا ہے۔
جب یہ دونوں چیزیں جمع ہو جائیں تو اس کے حصول کے لیے رغبت مزید بڑھ جاتی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1472