صحيح البخاري
كِتَاب الزَّكَاة -- کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
53. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {لاَ يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا} وَكَمِ الْغِنَى:
باب: (سورۃ البقرہ میں) اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ”جو لوگوں سے چمٹ کر نہیں مانگتے“ اور کتنے مال سے آدمی مالدار کہلاتا ہے۔
حدیث نمبر: 1480
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَأَنْ يَأْخُذَ أَحَدُكُمْ حَبْلَهُ ثُمَّ يَغْدُوَ , أَحْسِبُهُ قَالَ: إِلَى الْجَبَلِ، فَيَحْتَطِبَ فَيَبِيعَ فَيَأْكُلَ وَيَتَصَدَّقَ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَسْأَلَ النَّاسَ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ: أَكْبَرُ مِنَ الزُّهْرِيِّ وَهُوَ قَدْ أَدْرَكَ ابْنَ عُمَرَ.
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابوصالح ذکوان نے بیان کیا ‘ اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ‘ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی شخص اپنی رسی لے کر (میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا) پہاڑوں میں چلا جائے پھر لکڑیاں جمع کر کے انہیں فروخت کرے۔ اس سے کھائے بھی اور صدقہ بھی کرے۔ یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 599  
´ضرورت کے بغیر مانگنا جائز نہیں ہے`
«. . . 371- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: والذي نفسي بيده، ليأخذ أحدكم حبله فيحتطب على ظهره خير له من أن يأتي رجلا أعطاه الله من فضله فيسأله، أعطاه أو منعه. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تم میں سے کوئی آدمی اپنی رسی لے، پھر لکڑیاں اکھٹی کر کے اپنی پیٹھ پر (رکھ کر) لے آئے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی ایسے آدمی کے پاس جا کر مانگے جسے اللہ نے اپنے فضل (مال) سے نواز رکھا ہو۔ وہ اسے دے یا دھتکار دے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 599]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1470، من حديث مالك به * وفي رواية يحييٰ بن يحييٰ: لَأَنْ يَأْخُذَ]

تفقه:
➊ بہترین رزق وہی ہے جسے انسان اپنے ہاتھوں اور محنت سے کمائے۔
➋ شرعی عذر کے بغیر لوگوں سے مانگنا جائز نہیں ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 371   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 680  
´دوسروں سے مانگنے کی ممانعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: تم میں سے کوئی شخص صبح سویرے جائے اور لکڑیوں کا گٹھر اپنی پیٹھ پر رکھ کر لائے اور اس میں سے (یعنی اس کی قیمت میں سے) صدقہ کرے اور اس طرح لوگوں سے بے نیاز رہے (یعنی ان سے نہ مانگے) اس کے لیے اس بات سے بہتر ہے کہ وہ کسی سے مانگے، وہ اسے دے یا نہ دے ۱؎ کیونکہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے افضل ہے ۲؎، اور پہلے اسے دو جس کی تم خود کفالت کرتے ہو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 680]
اردو حاشہ:
1؎:
عزیمت کی راہ یہی ہے کہ آدمی ضرورت و حاجت ہونے پر بھی کسی سے سوال نہ کر ے اگرچہ ضرورت و حاجت کے وقت سوال کرنا جائز ہے۔

2؎:
اوپر والے ہاتھ سے مراد دینے والا ہاتھ ہے اور نیچے والے ہاتھ سے مراد لینے والا ہاتھ ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 680   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1480  
1480. حضرت ابو ہریرۃ ؓ ہی سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:تم میں سے کوئی اپنی رسی پکڑے اور صبح صبح پہاڑ کی طرف چلاجائے، وہاں لکڑیاں چنے، پھر انھیں فروخت کرے، اس سے کچھ کھائے اور کچھ صدقہ کردے، یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ وہ لوگوں سے سوال کرتا پھرے۔ امام بخاری ؓ بیان کر تے ہیں کہ راوی حدیث صالح بن کیسان امام زہری ؓ سے بڑے ہیں اور انھوں نے حضرت ا بن عمر ؓ کا زمانہ پایا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1480]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی پہلی حدیث میں مسکین کی تعریف کی گئی ہے، اس تعریف سے غنا کا مفہوم اخذ کیا جا سکتا ہے، ہمارے نزدیک غنا کی تین اقسام ہیں:
٭ وہ انسان غنی ہے جو نصاب کا مالک ہو اور اس پر زکاۃ ادا کرنا ضروری ہو، رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ ؓ سے فرمایا تھا کہ یمن کے غنی حضرات سے زکاۃ وصول کی جائے اور ان کے فقیروں پر تقسیم کر دی جائے۔
٭ وہ انسان جو صاحب نصاب تو نہ ہو لیکن اس کے پاس اتنا مال ہو کہ اس کے لیے زکاۃ لینا حرام ہو۔
٭ وہ انسان جس کے پاس اتنا مال موجود ہو کہ اس کے لیے لوگوں سے سوال کرنا حرام ہو، اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کے پاس ایک دن اور رات کا کھانا موجود ہو اور اتنا کپڑا بھی موجود ہو جس سے وہ ستر پوشی کر سکے۔
(2)
حضرت ابو ہریرہ ؓ کی دوسری حدیث سے کسب حلال کے لیے محنت ومزدوری کرنا ثابت ہے۔
اگر کسی انسان کے پاس اس قدر وسائل ہیں کہ وہ انہیں استعمال میں لا کر گزر اوقات کر سکتا ہے تو اسے بھی غنی کہا جا سکتا ہے اور ایسے شخص پر بھی لوگوں سے سوال کرنا حرام ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ کسی مالدار، صحیح و سلامت اعضاء والے طاقت ور کے لیے زکاۃ جائز نہیں، ایک دوسری روایت میں ہے کہ مالدار، صحت مند اور کمانے والے آدمی کے لیے زکاۃ میں کوئی حصہ نہیں۔
(مسندأحمد: 164/2) (3)
واضح رہے کہ پانچ قسم کے مالدار افراد کے لیے صدقہ جائز ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مالدار شخص کے لیے پانچ صورتوں کے علاوہ صدقہ حلال نہیں:
٭ زکاۃ کا مال اکٹھا کرنے کی صورت میں۔
٭ وہ شخص جو اپنے مال سے صدقے کی کوئی چیز خریدے۔
٭ جو مالدار مقروض ہو جائے۔
٭ فی سبیل اللہ جہاد کرنے والا۔
٭ مسکین پر جو چیز صدقہ کی گئی، وہ کسی مالدار کو تحفہ دے دے۔
(مسندأحمد: 56/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1480