صحيح البخاري
كِتَاب الزَّكَاة -- کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
67. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا} وَمُحَاسَبَةِ الْمُصَدِّقِينَ مَعَ الإِمَامِ:
باب: اللہ تعالیٰ نے سورۃ التوبہ میں فرمایا زکوٰۃ کے تحصیلداروں کو بھی زکوٰۃ سے دیا جائے گا۔
وَمُحَاسَبَةِ الْمُصَدِّقِينَ مَعَ الإِمَامِ:
‏‏‏‏ اور ان کو حاکم کے سامنے حساب سمجھانا ہو گا۔ یہاں کان اور رکاز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے الگ الگ بیان فرمایا۔ اور یہی باب کا مطلب ہے۔
حدیث نمبر: 1500
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:"اسْتَعْمَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مِنْ الْأَسْدِ عَلَى صَدَقَاتِ بَنِي سُلَيْمٍ يُدْعَى ابْنَ اللُّتْبِيَّةِ، فَلَمَّا جَاءَ حَاسَبَهُ".
ہم سے یوسف بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے باپ (عروہ بن زبیر) نے بیان کیا ‘ ان سے ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسد کے ایک شخص عبداللہ بن لتبیہ کو بنی سلیم کی زکوٰۃ وصول کرنے پر مقرر فرمایا۔ جب وہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے حساب لیا۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2946  
´ملازمین کو ہدیہ لینا کیسا ہے؟`
ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ ازد کے ایک شخص کو جسے ابن لتبیہ کہا جاتا تھا زکاۃ کی وصولی کے لیے عامل مقرر کیا (ابن سرح کی روایت میں ابن اتبیہ ہے) جب وہ (وصول کر کے) آیا تو کہنے لگا: یہ مال تو تمہارے لیے ہے (یعنی مسلمانوں کا) اور یہ مجھے ہدیہ میں ملا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا: عامل کا کیا معاملہ ہے؟ کہ ہم اسے (وصولی کے لیے) بھیجیں اور وہ (زکاۃ کا مال لے کر) آئے اور پھر یہ کہے: یہ مال تمہارے لیے ہے اور یہ مجھے ہدیہ دیا گیا ہے، کیوں نہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2946]
فوائد ومسائل:
حکومت کا منصب دار ہوتے ہوئے متعینہ حق سے زیادہ لینا خواہ لوگ اپنی مرضی سے کیوں نہ دیں۔
اور اسے ہدیہ بتایئں تو وہ بیت المال کا حق ہے۔
اور قومی امانت ہے۔
اسے اپنے ذاتی تصرف میں لانا جائز ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2946   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1500  
1500. حضرت ابوحمید ساعدی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ بنو سلیم کی زکاۃ وصول کرنے کے لیے قبیلہ اسد کے ایک شخص کو مقرر فرمایا جسے ابن لتبیہ کہا جاتا تھا، جب وہ واپس آیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے حساب لیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1500]
حدیث حاشیہ:
زکوٰۃ وصول کرنے والوں سے حاکم اسلام حساب لے گا تاکہ معاملہ صاف رہے‘ کسی کو بدگمانی کا موقع نہ ملے۔
ابن منیر نے کہا کہ احتمال ہے کہ عامل مذکور نے زکوٰۃ میں سے کچھ اپنے مصارف میں خرچ کردیا ہو‘ لہٰذا اس سے حساب لیا گیا۔
بعض روایات سے یہ بھی ظاہر ہے کہ بعض مال کے متعلق اس نے کہا تھا کہ یہ مجھے بطور تحفہ ملا ہے‘ اس پر حساب لیا گیا۔
اور تحفہ کے بارے میں فرمایا گیا کہ یہ سب بیت المال ہی کا ہے۔
جس کی طرف سے تم کو بھیجا گیا تھا۔
تحفہ میں تمہارا کوئی حق نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1500   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1500  
1500. حضرت ابوحمید ساعدی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ بنو سلیم کی زکاۃ وصول کرنے کے لیے قبیلہ اسد کے ایک شخص کو مقرر فرمایا جسے ابن لتبیہ کہا جاتا تھا، جب وہ واپس آیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے حساب لیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1500]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس پر امام بخاری ؒ نے ایک عنوان ان الفاظ سے قائم کیا ہے:
حکمرانوں کو اپنے عمال کا محاسبہ کرنا چاہیے۔
پھر اس حدیث کو تفصیل سے بیان کیا ہے کہ ابن لتیبہ جب مال وصول کر کے رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو اس نے کہا کہ یہ زکاۃ ہے اور یہ مجھے ہدیہ میں ملا ہے، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا:
تو اگر اپنے گھر بیٹھا رہتا تو پھر پتہ چلتا کہ تیرے پاس ہدیہ اور نذرانہ کیسے آتا ہے؟ اس کے بعد آپ نے عام خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں اس غلط تاویل کو برسرعام بیان کیا تاکہ دوسروں کو عبرت ہو۔
(صحیح البخاري، الأحکام، باب: 41، حدیث: 7197) (2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زکاۃ کی وصولی کے لیے تحصیل دار مقرر کیا جا سکتا ہے اور اسے طے شدہ معاوضہ دینے میں کوئی حرج نہیں اور اس کا محاسبہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ ایسا کرنے سے وہ خیانت سے باز رہے گا۔
(3)
مدارس کے سفیر جو وصول شدہ چندے سے خاص شرح فیصد حق الخدمت وصول کرتے ہیں، ایسا کرنا مجہول اجرت کے ضمن میں آتا ہے جسے محل نظر قرار دینا مناسب ہے۔
ممکن ہے کہ عامل مذکور نے مال زکاۃ سے اپنے مصارف پر کچھ خرچ کیا ہو، اس بنا پر رسول اللہ ﷺ نے وصول کردہ زکاۃ اور اخراجات کا اس سے حساب لیا ہو۔
(فتح الباري: 461/3)
ابن سعد نے اس کا نام عبداللہ بتایا ہے جو ایک قبیلے بنو لتب کی طرف منسوب تھا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1500