صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ -- کتاب: حج کے مسائل کا بیان
1. بَابُ وُجُوبِ الْحَجِّ وَفَضْلِهِ:
باب: حج کی فرضیت اور اس کی فضیلت کا بیان۔
وَقَوْلِ اللَّهِ: وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلا وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ سورة آل عمران آية 97.
‏‏‏‏ اور اللہ پاک نے (سورۃ آل عمران میں) فرمایا لوگوں پر فرض ہے کہ اللہ کے لیے خانہ کعبہ کا حج کریں جس کو وہاں تک راہ مل سکے۔ اور جو نہ مانے (اور باوجود قدرت کے حج کو نہ جائے) تو اللہ سارے جہاں سے بےنیاز ہے۔
حدیث نمبر: 1513
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , قَالَ:" كَانَ الْفَضْلُ رَدِيفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَتِ امْرَأَةٌ مِنْ خَثْعَمَ فَجَعَلَ الْفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا وَتَنْظُرُ إِلَيْهِ، وَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْرِفُ وَجْهَ الْفَضْلِ إِلَى الشِّقِّ الْآخَرِ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ فِي الْحَجِّ، أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا لَا يَثْبُتُ عَلَى الرَّاحِلَةِ أَفَأَحُجُّ عَنْهُ، قَالَ: نَعَمْ وَذَلِكَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی انہیں ابن شہاب نے، انہیں سلیمان بن یسار نے، اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ فضل بن عباس (حجۃ الوداع میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سواری کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے کہ قبیلہ خثعم کی ایک خوبصورت عورت آئی۔ فضل اس کو دیکھنے لگے وہ بھی انہیں دیکھ رہی تھی۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فضل رضی اللہ عنہ کا چہرہ بار بار دوسری طرف موڑ دینا چاہتے تھے۔ اس عورت نے کہا یا رسول اللہ! اللہ کا فریضہ حج میرے والد کے لیے ادا کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ لیکن وہ بہت بوڑھے ہیں اونٹنی پر بیٹھ نہیں سکتے۔ کیا میں ان کی طرف سے حج (بدل) کر سکتی ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں۔ یہ حجتہ الوداع کا واقعہ تھا۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 337  
´حج بدل کا بیان`
«. . . يا رسول الله صلى الله عليه وسلم إن فريضة الله على العباد فى الحج ادركت ابى شيخا كبيرا لا يستيطع ان يثبت على الراحلة افاحج عنه. قال: نعم . . .»
. . . یا رسول اﷲ! اﷲ تعالی نے بندوں پر اس وقت حج فرض کیا جب میرے والد صاحب بہت بوڑھے ہو گئے، کیا میں ان کی طرف سے حج کر لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہاں! . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 337]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1513، ومسلم 1334، من حديث ما لك به]

تفقہ:
➊ اس پر جمہور علماء کا اجماع ہے کہ مرد عورت کی طرف سے اور عورت مرد کی طرف سے حج کر سکتے ہیں، صرف حسن بن صالح اسے مکروہ سمجھتے ہیں۔ [الاجماع لابن المنذر: 210، حاجي كے شب وروز ص 90]
➋ اس حدیث سے بعض علماء نے یہ استدلال کیا ہے کہ بحالت احرام عورت کے لئے غیر مردوں سے اپنا چہرہ چھپانا فرض و واجب نہیں ہے، تاہم افضل یہی ہے کہ غیر مردوں سے عورت اپنا چہرہ بھی چھپائے۔ فاطمہ بنت المنذ رحمہا الله فرماتی ہیں کہ ہم حالت احرام میں غیر مردوں سے اپنے چہرے چھپا لیتی تھیں اور ہمارے ساتھ ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی اسماء رضی اللہ عنہا ہوتی تھیں۔ [الموطأ، رواية يحييٰ 328/1 ح 734، وسنده صحيح]
➌ اگر سواری میں بوجھ اٹھانے کی طاقت ہو تو اس پر دو آدمی (یا زیاده) سوار ہو سکتے ہیں۔
➍ اس پر اجماع ہے کہ جو بالغ شخص حج والے دن، حج کی نیت سے عرفات پہنچ جائے اور حج کر لے تو اس کی طرف سے فریضہ حج ادا ہو جاتا ہے، چاہے یہ شخص اس وقت غریب فقیر تھا یا کسی بھی وجہ سے مکہ پہنچ گیا تھا۔
➎ میت کی طرف سے صرف وہی حج کر سکتا ہے جس نے پہلے بذات خود فریضہ حج ادا کر رکھا ہو جیسا کہ شبرمہ والی حدیث سے ثابت ہے۔ دیکھئے: [المعجم الكبير للطبراني 226/1 وسنده حسن]
➏ ہر وقت اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے رہنا چاہئے کیونکہ انسان جتنا بھی نیک ہو، اس سے خطا اور لغزش کا صدور ممکن ہے۔
➐ اصحاب اقتدار کے لئے ضروری ہے کہ نیکی کا حکم دیں اور برائیوں سے منع کریں۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 58   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2132  
´جو شخص مر جائے اور اس کے ذمہ نذر ہو تو اس کے حکم کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ پوچھا کہ میری ماں کے ذمہ ایک نذر تھی وہ مر گئیں، اور اس کو ادا نہ کر سکیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ان کی جانب سے اسے پوری کر دو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2132]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  نذر پوری کرنا واجب ہے۔

(2)
  اگر کوئی فوت ہو جائے اور نذر پوری نہ کی ہو تو مالی نذر اس کے مال سے پوری کر لی جائے جس طرح قرض ادا کیا جاتا ہے پھر ترکہ تقسیم کیا جائے۔

(3)
  بدنی نذر اس کے قریبی وارث کو پوری کرنی چاہیے۔

(4)
  اولاد کا حق زیادہ ہے کہ وہ والدین کی نذر پوری کریں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2132   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 584  
´حج کی فضیلت و فرضیت کا بیان`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہی روایت ہے کہ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے کہ قبیلہ خشعم کی ایک عورت آئی تو فضل رضی اللہ عنہ اس کی طرف دیکھنے لگے اور وہ ان کی طرف دیکھنے لگی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، فضل رضی اللہ عنہ کا منہ دوسری جانب پھیرتے تھے۔ پس اس عورت نے کہا، اے اللہ کے رسول! بیشک حج، اللہ کا فرض ہے اس کے بندوں پر۔ میرا باپ بڑی عمر والا بوڑھا ہے۔ وہ سواری پر بیٹھ نہیں سکتا کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! اور یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے۔ (بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ [بلوغ المرام/حدیث: 584]
584 لغوی تشریح:
«رَدِيف» ایک سواری پر دو بیٹھنے والوں سے پیچھے والے کو «رديف» کہتے ہیں۔
«خَثْعَمَ» خا پر زبر ثا ساکن اور عین پر زبر ہے۔ یمن کے مشہور قبیلے کا نام ہے۔ اسے منصرف اور غیر منصرف دونوں طرح پڑھنا ہے۔
«الشِّقٌ» یعنی جانب۔ آپ نے حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کا چہرہ اس لیے پھیر دیا کہ کہیں شیطان انہیں فتنے میں مبتلا نہ کر دے۔
«حَجَّةِ الْوَدَاعِ» یہ وہ حج ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ہجری میں کیا اور اس کے تین ماہ بعد آپ وفات پاگئے۔ الوداع کے واو پر زبر ہے۔ اور یہ «وَدَّعَ» «توديعا» کا مصدر ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ واو کے نیچے کسرہ ہے۔ یوں یہ «وَادَعَ» «موادعة» کا مصدر ہے۔ آخری حج کا نام حجتہ الوداع اس لیے رکھا گیا ہے کہ آپ نے اس سال لوگوں کو یا حرم کعبہ کو رخصت اور الوداع کیا۔ یہ حدیث دلیل ہے کہ زندہ آدمی اگر معذور ہو اور اس کی صحت کی امید نہ ہو تو اس کی جانب سے حج بدل جائز ہے۔

فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس پر حج فرض ہو مگر وہ کسی مستقل بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے حج کرنے کی طاقت نہ پاتا ہو تو اس کی طرف سے حج بدل جائز ہے۔ لیکن عارضی بیماری (جس کے دور ہو جانے کا امکان ہو) میں نیابت درست نہیں۔ یہ شرط فرض حج کے لیے ہے، نفلی حج کے لیے اس میں شرط نیابت جائز ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام احمد رحمہ اللہ کا یہی موقف ہے۔ اور حج بدل کے لیے بہتر یہی ہے کہ اس کا قریبی ہی نائب بنے۔

وضاحت:
حضرت فضل بن عباس یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی تھے۔ ان کی والدہ کا نام ام فضل لبابۃ الکبریٰ بنت الحارث الھلالیۃ تھا۔ نہایت حسین و جمیل تھے۔ معرکہ حنین میں آپ کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دینے میں شریک تھے اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سب سے بڑے یہی تھے۔ جہاد کے لیے شام تشریف لے گئے، کہا جاتا ہے ہے کہ طاعون عمواس کے سال اردن کے قریب 18 ہجری میں انتقال ہوا۔ بعض نے کہا ہے کہ یرموک کے دن شہید ہوئے اور بعض نے کہا کہ دمشق میں وفات پائی جبکہ ان کے جسم پر نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی چادر تھی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 584   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1546  
´میت کی طرف سے نذر پوری کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ رضی الله عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک نذر کے بارے جو ان کی ماں پر واجب تھی اور اسے پوری کرنے سے پہلے وہ مر گئیں، فتویٰ پوچھا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کی طرف سے نذر تم پوری کرو ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النذور والأيمان/حدیث: 1546]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
میت کے واجب حقوق کو پورا کرنا اس کے وارثوں کے ذمہ واجب ہے،
اس کے لیے میت کی طرف سے اسے پوری کرنے کی وصیت ضروری نہیں،
ورثاء کو اپنی ذمہ داری کا خود احساس ہونا چاہئے،
اور ورثاء میں سے اسے پورا کرنے کی زیادہ ذمہ داری اولاد پر ہے،
اگر نذر کا تعلق مال سے ہے تو اسے پوری کرنا مستحب ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1546   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1809  
´حج بدل کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیچھے سوار تھے کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت آپ کے پاس فتویٰ پوچھنے آئی تو فضل اسے دیکھنے لگے اور وہ فضل کو دیکھنے لگی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فضل کا منہ اس عورت کی طرف سے دوسری طرف پھیرنے لگے ۱؎، اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں پر (عائد کردہ) فریضہ حج نے میرے والد کو اس حالت میں پایا ہے کہ وہ بوڑھے ہو چکے ہیں، اونٹ پر نہیں بیٹھ سکتے کیا میں ان کی جانب سے حج کر لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اور یہ واقعہ حجۃ الوداع میں پیش آیا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1809]
1809. اردو حاشیہ:
➊ جہاں کہیں کوئی خلاف شریعت عم ل(منکر) نظر آئے تو مسلمان کو چاہیے کہ بالفعل اس کو روکنے کی کوشش کرے جیسے رسول اللہﷺ نے حضرت فضل کا چہرہ پھیر کر انہیں غلط نظر سے منع فرمایا۔
➋ جب کوئی شخص کسی ایسے مرض میں مبتلا ہوکہ شفا یابی بظاہر مشکل معلوم ہو تو اس کی طرف سے کوئی دوسرا شخص حج بدل کر سکتا ہے۔ لیکن اگر شفایابی کی امید ہوتو انتظار کیا جائے۔
➌ جب کوئی شخص از خود کسی کی طرف سے نائب بن جائے تو اس پر تکمیل حج لازم ہے۔
➍ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت بوقت ضرورت غیر محرم مردوں کےساتھں بات چیت کر سکتی ہے۔
➎ یہ حدیث «غض بصر» نگاہ نیچی رکھنے کے وجوب اور اجنبی عورت کی طرف دیکھنے کی حرمت پر دلالت کرتی ہے۔
➏ عورت اپنے باپ کی طرف سے حج بدل کر سکتی ہے۔بشرطیکہ پہلے وہ اپناحج کر چکی ہو۔
➐ ایک سواری پر دو آدمی بھی سوار ہو سکتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1809   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1513  
1513. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ایک دفعہ حضرت فضل بن عباس ؓ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں قبیلہ خثعم کی ایک عورت آئی تو حضرت فضل اس کی طرف دیکھنےلگے۔ تب نبی ﷺ نے فضل کا منہ دوسری طرف پھیردیا، چنانچہ اس عورت نے دریافت کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!اللہ تعالیٰ کا فریضہ حج جو اس کے بندوں پر عائد ہے، اس نے میرے بوڑھے باپ کو پالیا ہے مگر وہ سواری پر نہیں بیٹھ سکتا، تو کیا میں اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟آپ نے فرمایا: ہاں! یہ واقعہ حجۃ الوداع میں پیش آیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1513]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے یہ نکلا کہ نیابتا دو سرے کی طرف سے حج کرنا درست ہے۔
مگر وہ شخص دوسرے کی طرف سے حج کرسکتاہے جو اپنا فرض حج ادا کرچکا ہوا۔
اور حنفیہ کے نزدیک مطلقاً درست ہے اور ان کے مذہب کو وہ حدیث رد کرتی ہے جس کو ابن خزیمہ اور اصحاب سنن نے ابن عباس ؓ سے نکالا کہ آنحضرت ﷺ نے ایک شخص کو شبرمہ کی طرف سے لبیک پکار تے ہوئے سنا، فرمایا کہ تو اپنی طرف سے حج کرچکا ہے؟ اس نے کہا نہیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا تو پہلے اپنی طرف حج کر پھر شبرمہ کی طرف سے کرلو۔
اسی طرح کسی شخص کے مرجانے کے بعد بھی اس کی طرف حج درست ہے۔
بشرطیکہ وہ وصیت کر گیا ہو۔
اور بعضوں نے ماں باپ کی طرف سے بلا وصیت بھی حج درست رکھا ہے۔
(وحیدی)
حج کی ایک قسم حج بدل بھی ہے۔
جو کسی معذور یا متوفی کی طرف سے نیابتا کیا جاتا ہے۔
اس کی نیت کرتے وقت لبیک کے ساتھ جس کی طرف سے حج کے لئے آیا ہے اس کا نام لینا چاہئے۔
مثلاً ایک شخص زید کی طرف سے حج کے لئے گیا تو وہ یوں پکارے لَبَّیكَ عَن زَیدٍ نِیَابَة کسی معذور زندے کی طرف سے حج کرنا جائز ہے۔
اسی طرح کسی مرے ہوئے کی طرف سے بھی حج بدل کرایا جاسکتا ہے۔
ایک صحابی نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا تھا کہ ميرا باپ بہت ہی بوڑھا ہوگیا ہے۔
وہ سواری پر بھی چلنے کی طاقت نہیں رکھتا۔
آپ اجازت دیں تو میں ان کی طرف سے حج اداکرلوں۔
آپ نے فرمایا۔
ہاں کرلو (ابن ماجہ)
مگر اس کے لئے یہ ضر وری ہے کہ جس شخص سے حج بدل کرایا جائے وہ پہلے خود اپنا حج ادا کرچکا ہو۔
جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث سے ظاہر ہے۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ رَجُلًا يَقُولُ:
لَبَّيْكَ، عَنْ شُبْرُمَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«مَنْ شُبْرُمَةُ» قَالَ:
قَرِيبٌ لِي، قَالَ:
«هَلْ حَجَجْتَ قَطُّ؟» قَالَ:
لَا، قَالَ:
«فَاجْعَلْ هَذِهِ عَنْ نَفْسِكَ، ثُمَّ احْجُجْ عَنْ شُبْرُمَةَ» رواہ ابن ماجة یعنی ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ایک شخص کو سنا وہ لبیک پکارتے وقت کسی شخص شبرمہ نامی کی طرف سے لبیک پکاررہا ہے ہے۔
آپ نے دریافت کیا کہ بھئی یہ شبرمہ کون ہے؟ اس نے کہا کہ شبرمہ میرا ایک قریبی ہے۔
آپ نے پوچھا تو نے کبھی اپنا حج ادا کیا ہے۔
اس نے کہا نہیں۔
آپ نے فرمایا، اپنے نفس کی طرف سے حج ادا کر پھر شبرمہ کی طرف سے کرنا۔
اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ حج بدل وہی شخص کرسکتا ہے جوپہلے اپنا حج کرچکا ہو۔
بہت سے ائمہ اور امام شافعی ؒ وامام احمد ؒ کا یہی مذہب ہے۔
لمعات میں ملاعلی قاری مرحوم لکھتے ہیں:
الأمر یدل بظاهر علی أن النیابة إنما یجوز بعد أداء فرض الحج وإلیه ذهب جماعة من الأئمة والشافعي وأحمد۔
یعنی امر نبوی بظاہر اس بات پر دلالت کرتا ہے نیابت اسی کے لئے جائز ہے جو اپنا فرض ادا کرچکا ہو۔
علامہ شوکانی ؒ نے اپنی مایہ ناز کتاب نیل الاوطار میں یہ باب منعقد کیا ہے۔
باب من حج عن غیرہ ولم یکن حج عن نفسه۔
یعنی جس شخص نے اپنا حج نہیں کیا وہ غیر کا حج بدل کرسکتا ہے یا نہیں۔
اس پر آپ حدیث بالا شبرمہ والی لائے ہیں۔
اور اس پر فیصلہ دیا ہے:
و لیس في هذا الباب أصح منه۔
یعنی حدیث شبرمہ سے زیادہ اس باب میں اور کوئی صحیح حدیث اور وارد نہیں ہوئی ہے۔
پھر فرماتے ہیں:
وظاهر الحدیث أنه لا یجوز لمن یحج عن نفسه أن یحج عن غیرہ وسواء کان مستطیعا أوغیر مستطیع لأن النبي صلی اللہ علیه وسلم لم یستفصل هذا للرجل الذي سمعه یلبي عن شبرمة وهو ینزل منزلة العموم والیٰ ذلك ذهب الشافعي والناصر۔
(جزء رابع نیل الأوطارص173 ؤ)
یعنی اس حدیث ظاہر ہے کہ جس شخص نے اپنے نفس کی طرف سے پہلے حج نہ کیا ہو وہ حج بدل کسی دوسرے کی طرف سے نہیں کرسکتا۔
خواہ وہ اپنا حج کرنے کی طاقت رکھنے والا ہو یا طاقت نہ رکھنے والا ہو۔
اس لئے کہ نبی ﷺ نے جس شخص کو شبرمہ کی طرف سے لبیک پکارتے ہوئے سنا تھا اس سے آپ نے یہ تفصیل دریافت نہیں کی۔
پس یہ بمنزلہ عموم ہے اور امام شافعی ؒ وناصر ؒ کا یہی مذہب ہے۔
پس حج بدل کرنے اور کرانے والوں کو سوچ سمجھ لینا چاہئے۔
امر ضروری یہی ہے کہ حج بدل کے لئے ایسے آدمی کو تلاش کیا جائے جو اپنا حج ادا کرچکا ہوتا کہ بلاشک وشبہ ادائیگی فریضہ حج ہوسکے۔
اگرکسی بغیرحج کئے ہوئے کو بھیج دیا تو حدیث بالا کے خلاف ہو گا۔
نیز حج کی قبولیت اور ادائیگی میں پورا پورا تردد بھی باقی رہے گا۔
عقل مند ایسا کام کیوں کرے جس میں کافی روپیہ خرچ ہو اور قبولیت میں تردد وشک وشبہ ہاتھ آئے چرا کارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1513   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1513  
1513. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ایک دفعہ حضرت فضل بن عباس ؓ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں قبیلہ خثعم کی ایک عورت آئی تو حضرت فضل اس کی طرف دیکھنےلگے۔ تب نبی ﷺ نے فضل کا منہ دوسری طرف پھیردیا، چنانچہ اس عورت نے دریافت کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!اللہ تعالیٰ کا فریضہ حج جو اس کے بندوں پر عائد ہے، اس نے میرے بوڑھے باپ کو پالیا ہے مگر وہ سواری پر نہیں بیٹھ سکتا، تو کیا میں اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟آپ نے فرمایا: ہاں! یہ واقعہ حجۃ الوداع میں پیش آیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1513]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے وجوب حج اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ قبیلۂ خثعم کی عورت نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا فریضۂ حج جو اس کے بندوں پر عائد ہے، رسول اللہ ﷺ اس پر خاموش رہے، گویا اسے فرضیت حج بیان کرنے پر رسول اللہ ﷺ کی تائید حاصل ہے۔
فضیلت اس طرح ثابت ہوتی ہے کہ اسے ادا کرنے میں نیابت طلب کی گئی ہے، نیز عذر کے وقت بھی یہ حکم ہے کہ حج ساقط نہیں ہوگا بلکہ معذور کو چاہیے کہ وہ اپنا نائب مقرر کرکے حج بدل کرائے۔
(2)
فضیلت حج کے لیے کئی ایک احادیث مروی ہیں:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
حج مبرور کا بدلہ جنت کے سوا اور کچھ نہیں۔
(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1773)
حج مبرور وہ ہوتا ہے جس میں کسی گناہ کا ارتکاب نہ کیا گیا ہو۔
حضرت ابو ہریره ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جس نے حج کیا اور اس میں اپنی بیوی کے پاس نہ گیا اور نہ ہی اس نے کوئی فسق وفجور کا کام کیا تو وہ اپنے گناہوں سے پاک صاف ہوکر اس دن کی طرح واپس ہوگا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔
(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1521)
(3)
واضح رہے کہ حج نو ہجری کے آخر میں فرض ہواتھا لیکن رسول اللہ ﷺ نے آئندہ سال دس ہجری میں ادا فرمایا۔
(4)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی معذور کی طرف سے حج کرنا جائز ہے جسے حج بدل کہا جاتا ہے بشرطیکہ حج بدل کرنے والا پہلے اپنا حج کرچکا ہو۔
اور حج بدل کسی کے مرنے کے بعد بھی اس کی طرف سے کرنا جائز ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1513