صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ -- کتاب: حج کے مسائل کا بیان
4. بَابُ فَضْلِ الْحَجِّ الْمَبْرُورِ:
باب: حج مبرور کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1519
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: إِيمَانٌ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ، قِيلَ: ثُمَّ مَاذَا؟، قَالَ: جِهَادٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، قِيلَ: ثُمَّ مَاذَا؟، قَالَ: حَجٌّ مَبْرُورٌ".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے زہری نے بیان کیا، ان سے سعید بن مسیب نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے پوچھا کہ کون سا کام بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ پوچھا گیا کہ پھر اس کے بعد؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔ پھر پوچھا گیا کہ پھر اس کے بعد؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حج مبرور۔
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 26  
´حج مبرور`
«. . . أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ، أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ؟ فَقَالَ: إِيمَانٌ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ، قِيلَ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، قِيلَ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: حَجٌّ مَبْرُورٌ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا کہا گیا، اس کے بعد کون سا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا کہا گیا، پھر کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حج مبرور . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 26]

لغوی توضیح:
«حَجٌّ مَبْرُورٌ» وہ حج جو مسنون طریقے کے مطابق ادا کیا جائے اور نیکی و تقویٰ کے ساتھ تکمیل تک پہنچے، اس میں کسی بھی نافرمانی، عورتوں سے قربت یا جھگڑے وغیرہ کا ارتکاب نہ کیا گیا ہو۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 50   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1519  
1519. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ سے دریافت کیا گیا: کون سا عمل افضل ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ عرض کیا گیا: پھر کون سا؟آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ پھر دریافت کیا گیا کہ اس کے بعد کون سا؟ آپ ﷺ نےفرمایا: حج مبرور۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1519]
حدیث حاشیہ:
مبرور لفظ بر سے بنا ہے جس کے معنی نیکی کے ہیں۔
قرآن مجید میں لیس البر میں یہی لفظ ہے۔
یہ وہ حج ہے جس میں ازاول تا آخر نیکیاں ہی نیکیاں کی گئی ہوں۔
گناہ کا شائبہ بھی نہ ہو۔
ایسا حج قسمت والوں کو ہی نصیب ہوتا ہے۔
عند اللہ یہی حج مقبول ہے، پھر ایسا حاجی عمر بھر ایک مثالی مسلمان بن جاتا ہے اور اس کی زندگی سراپا اسلام اور ایمان کے رنگ میں رنگ جاتی ہے۔
اگر ایسا حج نصیب نہیں تو وہی مثال ہوگی خر عیسیٰ گر بمکہ رودچوں بیاد ہنوز خرباشند حج مبرور کی تعریف میں حافظ فرماتے ہیں الذي لا یخالطه شيئ من الإثم۔
یعنی حج مبرور وہ ہے جس میں گناہ کا مطلقاً دخل نہ ہو۔
حدیث جابر میں ہے کھانا کھلانا اور سلام پھیلانا جو حاجی اپنا شعار بنالے اس کا حج حج مبرور ہے۔
یہی حج وہ ہے جس سے گذشتہ صغیرہ وکبیرہ جملہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور ایسا حاجی اس حالت میں لوٹتا ہے گویا وہ آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔
اللہ پاک ہر حاجی کو ایسا ہی حج نصیب کرے۔
مگر افسوس ہے کہ آج کی مادی ترقیات نے، نئی نئی ایجادات نے روحانی عالم کو بالکل مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔
بیشتر حاجی مکہ شریف کے بازاروں میں جب مغربی سازوسامان دیکھتے ہیں، ان کی آنکھیں چکا چوند ہوجاتی ہیں وہ جائز اور ناجائز سے بلا ہو کر ایسی ایسی چیزیں خرید لیتے ہیں کہ واپس اپنے وطن آکر حاجیوں کی بدنامی کا موجب بنتے ہیں۔
حکومت کی نظروں میں ذلیل ہوتے ہیں۔
إلامن رحم اللہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1519   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1519  
1519. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ سے دریافت کیا گیا: کون سا عمل افضل ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ عرض کیا گیا: پھر کون سا؟آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ پھر دریافت کیا گیا کہ اس کے بعد کون سا؟ آپ ﷺ نےفرمایا: حج مبرور۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1519]
حدیث حاشیہ:
(1)
لفظ مبروربِر سے ہے جس کے معنی نیکی ہیں، اس بنا پر حج مبرور سے مراد ایسا حج ہے جس میں اول تا آخر نیکیاں ہی نیکیاں ہوں۔
اس میں گناہ کا شائبہ تک نہ ہو۔
اللہ کے ہاں یہی حج مقبول ہوتا ہے۔
(2)
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ حج مبروروہ ہے جس میں گناہ کا مطلق طور پر کوئی دخل نہ ہو۔
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ حج کی نیکی کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:
کھانا کھلانااور سلام پھیلانا۔
(مسندأحمد: 325/3)
لیکن اس کی سند میں ضعف ہے۔
اگر یہ حدیث صحیح ثابت ہوتو حج مبرور کے معنی متعین ہیں۔
بہر حال اس سے مراد وہ حج ہے جس کے احکام پورے طور پر ادا کیے گئے ہوں اور ان میں کسی قسم کی کمی نہ ہو۔
(فتح الباري: 481/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1519