سنن ابي داود
كِتَاب الْمَنَاسِكِ -- کتاب: اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل
4. باب التَّزَوُّدِ فِي الْحَجِّ
باب: سفر حج میں زاد راہ لینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1730
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْفُرَاتِ يَعْنِي أَبَا مَسْعُودٍ الرَّازِيَّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمَخْرَمِيُّ وَهَذَا لَفْظُهُ، قَالَا: حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، عَنْ وَرْقَاءَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" كَانُوا يَحُجُّونَ وَلَا يَتَزَوَّدُونَ"، قَالَ أَبُو مَسْعُودٍ:" كَانَ أَهْلُ الْيَمَنِ أَوْ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ يَحُجُّونَ وَلَا يَتَزَوَّدُونَ، وَيَقُولُونَ: نَحْنُ الْمُتَوَكِّلُونَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ: وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى سورة البقرة آية 197، الْآيَةَ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ لوگ حج کو جاتے اور زاد راہ نہیں لے جاتے۔ ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اہل یمن یا اہل یمن میں سے کچھ لوگ حج کو جاتے اور زاد راہ نہیں لیتے اور کہتے: ہم متوکل (اللہ پر بھروسہ کرنے والے) ہیں تو اللہ نے آیت کریمہ «وتزودوا فإن خير الزاد التقوى» ۱؎ (زاد راہ ساتھ لے لو اس لیے کہ بہترین زاد راہ یہ ہے کہ آدمی سوال سے بچے) نازل فرمائی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الحج 6 (1523)، سنن النسائی/الکبری/السیر (8790)، (تحفة الأشراف: 6166) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: وضاحت ۱؎: سورة البقرة: (۱۹۸)

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1730  
´سفر حج میں زاد راہ لینے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ لوگ حج کو جاتے اور زاد راہ نہیں لے جاتے۔ ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اہل یمن یا اہل یمن میں سے کچھ لوگ حج کو جاتے اور زاد راہ نہیں لیتے اور کہتے: ہم متوکل (اللہ پر بھروسہ کرنے والے) ہیں تو اللہ نے آیت کریمہ «وتزودوا فإن خير الزاد التقوى» ۱؎ (زاد راہ ساتھ لے لو اس لیے کہ بہترین زاد راہ یہ ہے کہ آدمی سوال سے بچے) نازل فرمائی۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1730]
1730. اردو حاشیہ: اس آیت کریمہ میں اللہ عز وجل نے حکم دیا ہے کہ سفر میں کھانے پینے اور اقامت کے علاوہ دیگر تمام لوازم کے اخراجات لے کر آیا کرو۔ ان کے بغیر نکل کھڑے ہونا اور پھر لوگوں کی طرف دیکھنا یا سوال کرتے پھرنا اور اس کا نام توکل رکھنا بالکل غلط ہے۔ توکل کے مفہوم میں یہ ہے کہ مشروع اسباب اختیار کر لینے کے بعد اللہ تعالیٰ پر کامل اعتماد کیا جائے۔ تاہم کچھ احادیث سے یہ معنی ضرور ملتا ہے کہ اگر کوئی شخص اس انداز میں اسباب ترک کر دیتا ہےکہ اسباب یامخلوق کی طرف اس کی نظر قطعاً نہ جائے تو اسے بھی متوکل کہا گیا ہے مگر یہ ازحد مشکل مقام ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1730