سنن ابي داود
كِتَاب الْمَنَاسِكِ -- کتاب: اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل
9. باب فِي الْمَوَاقِيتِ
باب: میقات کا بیان۔
حدیث نمبر: 1738
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَنْ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَا:" وَقَّتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" بِمَعْنَاهُ، وَقَالَ أَحَدُهُمَا:" وَلِأَهْلِ الْيَمَنِ يَلَمْلَمَ"، وَقَالَ أَحَدُهُمَا:" أَلَمْلَمَ"، قَالَ: فَهُنَّ لَهُمْ وَلِمَنْ أَتَى عَلَيْهِنَّ مِنْ غَيْرِ أَهْلِهِنَّ مِمَّنْ كَانَ يُرِيدُ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ وَمَنْ كَانَ دُونَ ذَلِكَ. قَالَ ابْنُ طَاوُسٍ: مِنْ حَيْثُ أَنْشَأَ، قَالَ: وَكَذَلِكَ حَتَّى أَهْلُ مَكَّةَ يُهِلُّونَ مِنْهَا.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میقات مقرر کیا پھر ان دونوں نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی، ان دونوں (راویوں میں سے) میں سے ایک نے کہا: اہل یمن کے لیے یلملم، اور دوسرے نے کہا: «ألملم»، اس روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ان لوگوں کی میقاتیں ہیں اور ان کے علاوہ لوگوں کی بھی جو ان جگہوں سے گزر کر آئیں اور حج و عمرہ کا ارادہ رکھتے ہوں، اور جو لوگ ان کے اندر رہتے ہوں۔ ابن طاؤس (اپنی روایت میں) کہتے ہیں: ان کی میقات وہ ہے جہاں سے وہ سفر شروع کریں یہاں تک کہ اہل مکہ مکہ ہی ۱؎ سے احرام باندھیں گے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/جزاء الصید 18 (1845)، صحیح مسلم/الحج 2 (1183)، سنن النسائی/الحج 20 (2655)، 23 (2658)، (تحفة الأشراف: 5738، 18827)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/238، 249) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ حاجی یا معتمر اگر مکہ یا مذکورہ مواقیت کے اندر رہتا ہو تو اس کا حکم عام لوگوں سے مختلف ہے اس کے لئے میقات پر جانا ضروری نہیں بلکہ اپنے گھر سے نکلتے وقت ہی احرام باندھ لینا اس کے لئے کافی ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1738  
´میقات کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میقات مقرر کیا پھر ان دونوں نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی، ان دونوں (راویوں میں سے) میں سے ایک نے کہا: اہل یمن کے لیے یلملم، اور دوسرے نے کہا: «ألملم»، اس روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ان لوگوں کی میقاتیں ہیں اور ان کے علاوہ لوگوں کی بھی جو ان جگہوں سے گزر کر آئیں اور حج و عمرہ کا ارادہ رکھتے ہوں، اور جو لوگ ان کے اندر رہتے ہوں۔‏‏‏‏ ابن طاؤس (اپنی روایت میں) کہتے ہیں: ان کی میقات وہ ہے جہاں سے وہ سفر شروع کریں یہاں تک کہ اہل مکہ مکہ ہی ۱؎ سے احرام باندھیں گے۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1738]
1738. اردو حاشیہ: ان مقامات سے احرام باندھنا انہی لوگوں پر واجب ہے جو حج یا عمرہ کی نیت رکھتے ہوں دوسروں کے لیے نہیں ہے۔یلملم: بیت اللہ کے جنوب میں ایک مقام ہے جو یمن چین بنگلہ دیش افغانستان ہندوستان اور پاکستا ن کی طرف سے آنے والوں کی میقات ہے۔یہ مکہ مکرمہ سے 92کلومیٹر پر واقع ہے۔ ذوالحلیفه: مدینہ منورہ اور اس سے ملحقہ علاقوں کی طرف سے آنے والوں کی میقات۔ اس کاموجودہ نام آبار علی ہے۔مدینہ سے قریب تر اور مکہ سے تقریباً ساڑھے چار سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ جحفه: شام ترکی اور مصر کی جانب سے آنے والوں کی میقات۔ اب یہ بستی موجود نہین مگر قریب ہی رابغ نامی جگہ سے لوگ احرام باندھتے ہیں۔یہ مکہ سےشمال مغرب میں 187 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ذات العرق: عراق وغیرہ کی طرف سے آنے والوں کی میقات۔ اب یہ بستی موجود نہین مگر قریب ہی الضریبہ نامی جگہ سے لوگ احرام باندھتے ہیں۔جسے خریبات بھی کہتے ہین۔یہ مکہ سے شمال مشرق میں 94 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔قرن المنازل: اہل نجد اور عرفات کی طرف آنے والوں کی میقات۔اب یہ بستی موجود نہیں مگر قریب ہی السیل نامی جگہ سے احرام باندھا جاتاہے جو مکہ سے 94 کلومیٹر دور ہے
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1738