سنن ابي داود
كِتَاب الْمَنَاسِكِ -- کتاب: اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل
17. باب مَنْ بَعَثَ بِهَدْيِهِ وَأَقَامَ
باب: ہدی بھیج کر خود مقیم رہنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1759
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، وَعَنْ إِبْرَاهِيمَ، زَعَمَ أَنَّهُ سَمِعَهُ مِنْهُمَا جَمِيعًا وَلَمْ يَحْفَظْ حَدِيثَ هَذَا مِنْ حَدِيثِ هَذَا وَلَا حَدِيثَ هَذَا مِنْ حَدِيثِ هَذَا، قَالَا: قَالَتْ أُمُّ الْمُؤْمِنِينَ:" بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْهَدْيِ، فَأَنَا فَتَلْتُ قَلَائِدَهَا بِيَدِي مِنْ عِهْنٍ كَانَ عِنْدَنَا ثُمَّ أَصْبَحَ فِينَا حَلَالًا يَأْتِي مَا يَأْتِي الرَّجُلُ مِنْ أَهْلِهِ".
ام المؤمنین (عائشہ) رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدی روانہ کئے تو میں نے اپنے ہاتھ سے اس اون سے ان کے قلادے بٹے جو ہمارے پاس تھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال ہو کر ہم میں صبح کی آپ نے وہ تمام کام کئے جو ایک حلال (غیر مُحرم) آدمی اپنی بیوی سے کرتا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الحج (1705)، صحیح مسلم/الحج 64 (1321)، سنن النسائی/الحج 65 (2778)، (تحفة الأشراف: 15918، 17466) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 305  
´احرام باندھے اور لبیک کہے بغیر کوئی چیز حرام نہیں ہوتی`
«. . . 308- مالك عن عبد الله بن أبى بكر عن عمرة بنت عبد الرحمن أنها أخبرته أن زياد بن أبى سفيان كتب إلى عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم أن عبد الله بن عباس قال: من أهدى هديا حرم عليه ما حرم على الحاج حتى ينحر هديه، وقد بعثت بهدي فاكتبي إلى بأمرك أو مري صاحب الهدي، قالت عمرة: فقالت عائشة: ليس كما قال ابن عباس، أنا فتلت قلائد هدي رسول الله صلى الله عليه وسلم بيدي ثم قلدها رسول الله صلى الله عليه وسلم بيديه ثم بعث بها مع أبي، فلم يحرم على رسول الله صلى الله عليه وسلم شيء أحله الله له حتى نحر الهدي. . . .»
. . . زیاد بن ابی سفیان نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف لکھ کر بھیجا کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: جو شخص (بیت اللہ کی طرف) قربانی کے جانور روانہ کرے تو اس پر قربانی کرنے تک وہ چیزیں حرام ہو جاتی ہیں جو حاجی پر حرام ہوتی ہیں اور میں نے قربانی کے جانور روانہ کر دئیے ہیں، لٰہذا آپ اپنا فیصلہ میری طرف لکھ کر بھیجیں یا جو شخص قربانی کے جانور لاتا ہے اسے حکم دے دیں۔ عمرہ (بنت عبد الرحٰمن رحمہا اللہ) نے کہا: تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: جس طرح ابن عباس نے کہا ہے اس طرح نہیں ہے۔ میں اپنے ہاتھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے جانوروں کی گردن میں (قربانی کے نشان کے لئے) پٹے تیار کئے تھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خود ڈالا تھا۔ پھر انہیں میرے والد (سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) کے ساتھ (بیت اللہ کر طرف) روانہ کیا تو آپ پر قربانی ذبح ہونے تک اللہ کی حلال کردہ چیزوں میں سے کوئی چیز بھی حرام نہیں ہوئی تھی . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 305]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1700، ومسلم 369/1321، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ مجتہد سے غلطی یا بھول ہو سکتی ہے۔
➋ جواب ہمیشہ دلیل سے دینا چاہئے۔
➌ جو شخص قربانی کے جانور حرم بھیج دے اور اپنے گھر میں مقیم رہے تو اس کے بارے میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: آدمی پر احرام باندھے اور لبیک کہے بغیر چیزیں حرام نہیں ہوتیں۔ [الموطأ 1/341 ح770 وسنده صحيح]
➍ ایک آدمی نے قربانی کے جانور مقرر کر کے بھیج دیئے اور سلے ہوئے کپڑے اُتار دیئے۔ جب سیدنا عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا تو انہوں نے فرمایا: کعبے کے رب کی قسم! یہ بدعت ہے۔ [الموطأ 1/341 ح771 وسنده صحيح]
➎ اہلِ حق کا فقہی مسائل میں آپس میں اختلاف ہو سکتا ہے جو کہ مذموم نہیں ہے۔
➏ صحابۂ کرام ہر وقت سنت پر عمل کرنے میں مستعد رہتے تھے۔
➐ یہ ممکن ہے کہ بڑے سے بڑے عالم کو بعض حدیثیں معلوم نہ ہوں۔
➑ تقلید جائز نہیں ہے بلکہ استطاعت کے مطابق تحقیق ضروری ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 308   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 909  
´ہدی کی بکریوں کو قلادہ (پٹہ) پہنانے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدی کی بکریوں کے سارے قلادے (پٹے) میں ہی بٹتی تھی ۱؎ پھر آپ احرام نہ باندھتے (حلال ہی رہتے تھے)۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 909]
اردو حاشہ:
1؎:
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بکریوں کی تقلید بھی مستحب ہے،
امام مالک اور امام ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ بکریوں کی تقلید مستحب نہیں ان دونوں نے تقلید کو اونٹ گائے کے ساتھ خاص کیا ہے،
یہ حدیث ان دونوں کے خلاف صریح حجت ہے،
ان کا کہنا ہے کہ یہ کمزوری کا باعث ہو گی،
لیکن یہ دلیل انتہائی کمزور ہے اس لیے کہ تقلید سے مقصود پہچان ہے انہیں ایسی چیز کا قلادہ پہنایا جائے جس سے انہیں کمزوری نہ ہو۔
اللہ عزوجل ہم سب کو مذہبی و معنوی تقلید سے محفوظ رکھے،
اللھم آمین۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 909   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1759  
´ہدی بھیج کر خود مقیم رہنے کا بیان۔`
ام المؤمنین (عائشہ) رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدی روانہ کئے تو میں نے اپنے ہاتھ سے اس اون سے ان کے قلادے بٹے جو ہمارے پاس تھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال ہو کر ہم میں صبح کی آپ نے وہ تمام کام کئے جو ایک حلال (غیر مُحرم) آدمی اپنی بیوی سے کرتا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1759]
1759. اردو حاشیہ: در اصل ان احادیث میں اصحاب رائے کے اس قول کا جواب ہے کہ جب انسان ہدی بھیج دےاور اسے قلادہ بھی پہنا دے تواس پر احرام واجب ہوجاتاہے مگر حق یہی ہے جو ذکر ہوا کہ جب تک کوئی شخص عملاً احرام نہ باندھے محرم نہیں ہوتا اور نہ اس طرح احرام ہی واجب ہوتاہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1759