سنن ابي داود
كِتَاب الْمَنَاسِكِ -- کتاب: اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل
38. باب الْمُحْرِمِ يَغْتَسِلُ
باب: محرم غسل کرے تو کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 1840
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُنَيْنٍ، عَنْ أَبِيهِ،" أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ اخْتَلَفَا بِالْأَبْوَاءِ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: يَغْسِلُ الْمُحْرِمُ رَأْسَهُ، وَقَالَ الْمِسْوَرُ: لَا يَغْسِلُ الْمُحْرِمُ رَأْسَهُ، فَأَرْسَلَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ إِلَى أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ فَوَجَدَهُ يَغْتَسِلُ بَيْنَ الْقَرْنَيْنِ وَهُوَ يُسْتَرُ بِثَوْبٍ، قَالَ: فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ قُلْتُ: أَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُنَيْنٍ، أَرْسَلَنِي إِلَيْكَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ أَسْأَلُكَ: كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْسِلُ رَأْسَهُ وَهُوَ مُحْرِمٌ؟ قَالَ: فَوَضَعَ أَبُو أَيُّوبَ يَدَهُ عَلَى الثَّوْبِ فَطَأْطَأَهُ حَتَّى بَدَا لِي رَأْسُهُ، ثُمَّ قَالَ: لِإِنْسَانٍ يَصُبُّ عَلَيْهِ اصْبُبْ، قَالَ: فَصَبَّ عَلَى رَأْسِهِ، ثُمَّ حَرَّكَ أَبُو أَيُّوبَ رَأْسَهُ بِيَدَيْهِ، فَأَقْبَلَ بِهِمَا وَأَدْبَرَ، ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا رَأَيْتُهُ يَفْعَلُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
عبداللہ بن حنین سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما کے مابین مقام ابواء میں اختلاف ہو گیا، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: محرم سر دھو سکتا ہے، مسور نے کہا: محرم سر نہیں دھو سکتا، تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں (ابن حنین کو) ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا تو آپ نے انہیں دو لکڑیوں کے درمیان کپڑے کی آڑ لیے ہوئے نہاتے پایا، ابن حنین کہتے ہیں: میں نے سلام کیا تو انہوں نے پوچھا: کون؟ میں نے کہا: میں عبداللہ بن حنین ہوں، مجھے آپ کے پاس عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بھیجا ہے کہ میں آپ سے معلوم کروں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حالت احرام میں اپنے سر کو کیسے دھوتے تھے؟ ابوایوب رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ کپڑے پر رکھا اور اسے اس قدر جھکایا کہ مجھے ان کا سر نظر آنے لگا، پھر ایک آدمی سے جو ان پر پانی ڈال رہا تھا، کہا: پانی ڈالو تو اس نے ان کے سر پر پانی ڈالا، پھر ایوب نے اپنے ہاتھوں سے سر کو ملا، اور دونوں ہاتھوں کو آگے لائے اور پیچھے لے گئے اور بولے ایسا ہی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے دیکھا ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/جزاء الصید 14 (1840)، صحیح مسلم/الحج 13 (1205)، سنن النسائی/الحج 27 (2666)، سنن ابن ماجہ/المناسک 22 (2934)، موطا امام مالک/الحج 2 (4)، (تحفة الأشراف: 3463)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/416، 418، 421)، سنن الدارمی/المناسک 6 (1834)، (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: حالت احرام میں صرف پانی سے سر کا دھونا جائز ہے کسی بھی ایسی چیز سے اجتناب ضروری ہے جس سے جؤوں کے مرنے کا خوف ہو اسی طرح سر دھلتے وقت بالوں کو اتنا زور سے نہ ملے کہ وہ گرنے لگیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 307  
´حالت احرام میں سر دھونا جائز ہے`
«. . . عن إبراهيم بن عبد الله بن حنين عن ابيه ان عبد الله بن عباس والمسور بن مخرمة اختلفا بالابواء. فقال عبد الله بن عباس: يغسل المحرم راسه. . .»
. . . عبداللہ بن حنین (تابعی) سے روایت ہے کہ ابواءکے مقام پر عبداللہ بن عباس اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہم میں اختلاف ہو گیا تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: احرام باندھنے والا پنا سر دھوئے گا اور مسور رضی اللہ عنہ نے کہا: احرام باندھنے والا سر نہیں دھوئے گا. . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 307]

تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 1840، و مسلم 1205، من حديث مالك به]
تفقہ:
① لوگوں کے سامنے ننگے ہو کر نہانا ممنوع و حرام ہے اور اگر ننگا نہ ہو تو جائز ہے۔
② اگر صحابہ میں اختلاف ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔
③ حالت احرام میں کسی عذر یا ضرورت کی وجہ سے سر دھونا جائز ہے۔
④ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ عمرے یا حج کی حالت میں جب مکے میں داخل ہوتے تو داخل ہونے سے پہلے غسل کرتے تھے۔ [الموطا 324/1 ح 722 وسنده صحيح]
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ حالت احرام میں سر نہیں دھوتے تھے الا یہ کہ آپ حالت احتلام میں ہوتے [الموطا 324 ح 723 و سنده صحيح]
⑥ سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سُنی تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اللہ کی قسم! میں آپ کے ساتھ کبھی جھگڑا نہیں کروں گا۔ [التمهيد 4/263 وسنده صحيح]
⑦ ابن عبدالبر نے کہا: امت اگر کسی چیز پر اجماع کرلے تو یہ اجماع حجت ہے، یہ حق ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے۔ [التمهيد 4/267]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 179   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1840  
´محرم غسل کرے تو کیسا ہے؟`
عبداللہ بن حنین سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما کے مابین مقام ابواء میں اختلاف ہو گیا، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: محرم سر دھو سکتا ہے، مسور نے کہا: محرم سر نہیں دھو سکتا، تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں (ابن حنین کو) ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا تو آپ نے انہیں دو لکڑیوں کے درمیان کپڑے کی آڑ لیے ہوئے نہاتے پایا، ابن حنین کہتے ہیں: میں نے سلام کیا تو انہوں نے پوچھا: کون؟ میں نے کہا: میں عبداللہ بن حنین ہوں، مجھے آپ کے پاس عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بھیجا ہے کہ میں آپ سے معلوم کروں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حالت احرام میں اپنے سر کو کیسے دھوتے تھے؟ ابوایوب رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ کپڑے پر رکھا اور اسے اس قدر جھکایا کہ مجھے ان کا سر نظر آنے لگا، پھر ایک آدمی سے جو ان پر پانی ڈال رہا تھا، کہا: پانی ڈالو تو اس نے ان کے سر پر پانی ڈالا، پھر ایوب نے اپنے ہاتھوں سے سر کو ملا، اور دونوں ہاتھوں کو آگے لائے اور پیچھے لے گئے اور بولے ایسا ہی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے دیکھا ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1840]
1840. اردو حاشیہ:
➊ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ محرم نہاسکتاہے۔اور اپنا سر بھی دھوسکتا ہے۔یعنی حالت احرام میں غسل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔خواہ غسل واجبی ہو یا ویسے ہی راحت کےلئے۔اور سرکے بالوں کو ملتے ہوئے جو بال فطری انداز میں گر جایئں ان کا کوئی حرج نہیں۔
➋ تحقیق مسائل میں پختہ کار اور قابل اعتماد علماء کی طرف رجوع کرناچاہیے۔ <قرآن> (فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ) کے یہی معنی ہیں۔مگر ان پر بھی لازم ہے کہ <قرآن> (بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ) کی بنیاد پر بادلائل حق کو واضح کریں۔(دیکھئے تفسیر آیت مذکورہ سورۃ النحل آیت۔4
➍ 4
➌)

➌ خبر واحد حجت ہے۔نیز اہل حق کا شیوہ ہے۔کہ وہ اختلاف کے وقت نص (قرآن اور حدیث) کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
➍ صحیح حدیث معلوم ہوجانے کے بعد اجتہاد اور قیاس کو ترک کرنا فرض ہے۔
➎ وضو اور غسل کرنے والے کو سلام کہا جاسکتا ہے۔
➏ نہانے میں دوسرے شخص سے مدد لی جاسکتی ہے۔
➐ نہانے اور وضو کرنے کے دوران میں بوقت ضرورت بات چیت کرنا بھی جائز ہے۔واللہ اعلم۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1840