سنن ابي داود
كِتَاب الْمَنَاسِكِ -- کتاب: اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل
49. باب الطَّوَافِ الْوَاجِبِ
باب: طواف واجب کا بیان۔
حدیث نمبر: 1879
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ الْمَعْنَى، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ مَعْرُوفٍ يَعْنِي ابْنَ خَرَّبُوذَ الْمَكِّيَّ، حَدَّثَنَا أَبُو الطُّفَيْلِ، قَال:" رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ عَلَى رَاحِلَتِهِ يَسْتَلِمُ الرُّكْنَ بِمِحْجَنِهِ ثُمَّ يُقَبِّلُهُ"، زَادَ مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ:" ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّفَا وَ الْمَرْوَةِ فَطَافَ سَبْعًا عَلَى رَاحِلَتِهِ".
ابوطفیل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی سواری پر بیٹھ کر بیت اللہ کا طواف کرتے دیکھا، آپ حجر اسود کا استلام اپنی چھڑی سے کرتے پھر اسے چوم لیتے، (محمد بن رافع کی روایت میں اتنا زیادہ ہے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفا و مروہ کی طرف نکلے اور اپنی سواری پر بیٹھ کر سعی کے سات چکر لگائے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الحج 39 (1275)، سنن ابن ماجہ/المناسک 28(2949)، (تحفة الأشراف: 5051)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/454) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 617  
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان`
سیدنا ابو طفیل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت اللہ کا طواف کرتے دیکھا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نوکیلے سرے والی چھڑی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی، (اس) سے حجر اسود کو چھوتے اور اس چھڑی کو بوسہ دیتے تھے۔ (مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 617]
617 لغوی تشریح:
«بمحجن» میم کے نیچے کسرہ ہے۔ ٹیڑھے سرے والا ڈنڈا۔ خمدار چھڑی۔

فوائدومسائل:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر ہجوم زیادہ ہو اور حجراسود کو بوسہ دینا مشکل یا ناممکن نظر آئے تو چھڑی لگا کر اس چھڑی کو چوم لے۔
➋ مسند احمد میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تو طاقتور اور زور آور آدمی ہے۔ حجر اسود تک رسائی حاصل کرنا تیرے لئے دشوار کام نہیں ہے، مگر دھکم پیل سے کمزوروں کو اذیت اور تکلیف ہوتی ہے، اس لئے اگر تمہیں فارغ وقت میسر آ جائے تو ہاتھ سے چھو لیا کرو، بصورت دیگر حجر اسود کے سامنے کھڑے ہو کر «لا اله الاالله والله اكبر» ہی کہہ لیا کرو۔ [مسند احمد: 1 28]
➌ اس حدیث سے معلوم ہو رہا ہے کہ مناسک حج ادا کرتے ہوئے دوسروں کو تکلیف و اذیت دینا جائز نہیں
➍ اگر حجر اسود کا استلام صرف ہاتھ کے اشارے سے ہو تو ہاتھ کو چومنا نہیں چاہیے کیونکہ ہاتھ اور چھڑی وغیرہ کو اس لئے بوسہ دیا جاتا ہے کہ وہ حجر اسود کے ساتھ لگ چکے ہوتے ہیں۔

راوئ حدیث: حضرت ابوالطفیل رضی اللہ عنہ، ان کا نام عامر بن واثلہ کنانی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے آٹھ سال پائے۔ 100 ہجری میں مکہ مکرمہ میں وفات پائی۔ اور قول کے مطابق 102 ہجری میں وفات پائی۔ اور ایک قول ان کی وفات کے بارے میں 110 ہجری کا بھی ہے۔ روئے زمین پر بسنے والے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سب سے آخر میں فوت ہونے والے یہ خوش قسمت صحابی ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 617