سنن ابي داود
كِتَاب الْمَنَاسِكِ -- کتاب: اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل
64. باب الدَّفْعَةِ مِنْ عَرَفَةَ
باب: عرفات سے لوٹنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1921
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ. ح. وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِ زُهَيْرٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُقْبَةَ، أَخْبَرَنِي كُرَيْبٌ، أَنَّهُ سَأَلَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، قُلْتُ: أَخْبِرْنِي كَيْفَ فَعَلْتُمْ أَوْ صَنَعْتُمْ عَشِيَّةَ رَدِفْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: جِئْنَا الشِّعْبَ الَّذِي يُنِيخُ النَّاسُ فِيهِ لِلْمُعَرَّسِ فَأَنَاخَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَاقَتَهُ ثُمَّ بَالَ، وَمَا قَالَ زُهَيْرٌ: أَهْرَاقَ الْمَاءَ ثُمَّ دَعَا بِالْوَضُوءِ فَتَوَضَّأَ وُضُوءًا لَيْسَ بِالْبَالِغِ جِدًّا، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الصَّلَاةُ، قَالَ: الصَّلَاةُ أَمَامَكَ، قَالَ: رَكِبَ حَتَّى قَدِمْنَا الْمُزْدَلِفَةَ فَأَقَامَ الْمَغْرِبَ، ثُمَّ أَنَاخَ النَّاسُ فِي مَنَازِلِهِمْ وَلَمْ يَحِلُّوا حَتَّى أَقَامَ الْعِشَاءَ وَصَلَّى، ثُمَّ حَلَّ النَّاسُ". زَادَ مُحَمَّدٌ فِي حَدِيثِهِ، قَالَ: قُلْتُ: كَيْفَ فَعَلْتُمْ حِينَ أَصْبَحْتُمْ؟ قَالَ: رَدِفَهُ الْفَضْلُ وَانْطَلَقْتُ أَنَا فِي سُبَّاقِ قُرَيْشٍ عَلَى رِجْلَيَّ.
کریب کہتے ہیں کہ میں نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے پوچھا: جس شام کو آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوار ہو کر آئے تھے آپ نے کیا کیا کیا؟ وہ بولے: ہم اس گھاٹی میں آئے جہاں لوگ اپنے اونٹ رات کو قیام کے لیے بٹھاتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی بیٹھا دی، پھر پیشاب کیا، (زہیر نے یہ نہیں کہا کہ پانی بہایا) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کا پانی منگایا اور وضو کیا، جس میں زیادہ مبالغہ نہیں کیا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! نماز، (پڑھی جائے)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز آگے چل کر (پڑھیں گے)۔ اسامہ کہتے ہیں: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے یہاں تک کہ مزدلفہ آئے، وہاں آپ نے مغرب پڑھی پھر لوگوں نے اپنی سواریاں اپنے ٹھکانوں پر بٹھائیں یہاں تک کہ عشاء کی اقامت ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء پڑھی، پھر لوگوں نے اونٹوں سے اپنے بوجھ اتارے، (محمد کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ کریب کہتے ہیں) پھر میں نے پوچھا: صبح ہوئی تو آپ لوگوں نے کیسے کیا؟ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سوار ہوئے، اور میں پیدل قریش کے لوگوں کے ساتھ ساتھ چلا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/ الحج 207 (3033)، سنن ابن ماجہ/المناسک 59 (3019)، (تحفة الأشراف: 116)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الوضوء 35 (139)، والحج 95 (1666)، صحیح مسلم/الحج 47 (1280)، سنن الترمذی/الحج 54 (885)، موطا امام مالک/الحج 65 (197)، مسند احمد (5/200، 202، 208،210)، سنن الدارمی/المناسک 51 (1922) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1921  
´عرفات سے لوٹنے کا بیان۔`
کریب کہتے ہیں کہ میں نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے پوچھا: جس شام کو آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوار ہو کر آئے تھے آپ نے کیا کیا کیا؟ وہ بولے: ہم اس گھاٹی میں آئے جہاں لوگ اپنے اونٹ رات کو قیام کے لیے بٹھاتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی بیٹھا دی، پھر پیشاب کیا، (زہیر نے یہ نہیں کہا کہ پانی بہایا) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کا پانی منگایا اور وضو کیا، جس میں زیادہ مبالغہ نہیں کیا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! نماز، (پڑھی جائے)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز آگے چل کر (پڑھیں گے)۔‏‏‏‏ اسامہ کہتے ہیں: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے یہاں تک کہ مزدلفہ آئے، وہاں آپ نے مغرب پڑھی پھر لوگوں نے اپنی سواریاں اپنے ٹھکانوں پر بٹھائیں یہاں تک کہ عشاء کی اقامت ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء پڑھی، پھر لوگوں نے اونٹوں سے اپنے بوجھ اتارے، (محمد کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ کریب کہتے ہیں) پھر میں نے پوچھا: صبح ہوئی تو آپ لوگوں نے کیسے کیا؟ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سوار ہوئے، اور میں پیدل قریش کے لوگوں کے ساتھ ساتھ چلا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1921]
1921. اردو حاشیہ: مزدلفہ میں مغرب اورعشاء کی نمازیں جمع کرکے ہی پڑھی گئی تھیں۔دونوں نمازوں کے مابین سواریوں کو بٹھانا یا تو سواریوں پرشفقت کی غرض سے تھا یا یہ کہ کہیں وہ بکھر نہ جایئں۔ بہرحال یہ معمولی سا کام (جمع بین الصلواتین) کے منافی نہیں سمجھا جاسکتا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1921