سنن ابي داود
كِتَاب الْمَنَاسِكِ -- کتاب: اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل
66. باب التَّعْجِيلِ مِنْ جَمْعٍ
باب: مزدلفہ سے منیٰ جلدی واپس لوٹ جانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1940
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ، عَنْ الْحَسَنِ الْعُرَنِيِّ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" قَدَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْمُزْدَلِفَةِ أُغَيْلِمَةَ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ عَلَى حُمُرَاتٍ فَجَعَلَ يَلْطَخُ أَفْخَاذَنَا، وَيَقُولُ: أُبَيْنِيَّ لَا تَرْمُوا الْجَمْرَةَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ". قَالَ أَبُو دَاوُد: اللَّطْخُ: الضَّرْبُ اللَّيِّنُ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالمطلب کی اولاد میں سے ہم چھوٹے بچوں کو گدھوں پر سوار کر کے مزدلفہ کی رات پہلے ہی روانہ کر دیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری رانوں پر دھیرے سے مارتے تھے اور فرماتے تھے: اے میرے چھوٹے بچو! جمرہ پر کنکریاں نہ مارنا جب تک کہ آفتاب طلوع نہ ہو جائے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «لطح» کے معنی آہستہ مارنے کے ہیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/الحج 222 (3066)، سنن ابن ماجہ/ المناسک 62 (3025)، (تحفة الأشراف: 5396)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الحج 58 (893)، مسند احمد (1/234، 311، 343) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3025  
´جمرہ عقبہ کو کنکری مارنے کے لیے مزدلفہ سے منیٰ (وقت سے) پہلے آنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ سے عبدالمطلب کی اولاد میں سے ہم چھوٹے بچوں کو ہماری اپنی گدھیوں پر پہلے ہی روانہ کر دیا، آپ ہماری رانوں پر آہستہ سے مارتے تھے، اور فرماتے تھے: میرے بچو! سورج نکلنے سے پہلے کنکریاں نہ مارنا ۱؎۔ سفیان نے اپنی روایت میں اضافہ کیا ہے: میں نہیں سمجھتا کہ سورج نکلنے سے پہلے کوئی کنکریاں مارتا ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3025]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہے جبکہ دیگر محققین نےاسے صحیح قراردیا ہے۔
اور اس پر تفصیلی بحث کی ہے۔
محققین کی تفصیلی بحث والی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحديثية مسند الإمام أحمد بن حنبل: 3/ 504، 505، والإرواء للألباني: 4/ 276)

(2)
رسول اللہ ﷺ نے دس ذی الحجہ کو فجر کی نماز مزدلفہ میں ادا کی تھی۔
اس کے بعد کافی روشنی ہوجانے تک اللہ کے ذکر میں مشغول رہے پھر سورج طلوع ہونے سے پہلے مزدلفہ سے منی کی طرف روانہ ہوئے۔ (سنن ابن ماجة، حديث: 3074)
اور سورج طلوع ہونے سے پہلے مزدلفہ سے منی کی طرف روانہ ہوئے۔ (سنن ابن ماجة، حديث: 3074)
اور سورج طلوع ہونے کے بعد بڑے جمرے پر کنکریاں ماریں (سنن ابن ماجة، حديث: 3074)
بچوں پر شفقت کرنی چاہیے نیز انھیں دین کے مسائل نرمی سے سمجھانے چاہییں۔

(3)
بچے اورعورتیں صبح صادق ہونے سے پہلےمزدلفہ روانہ ہوسکتے ہیں اور فجر کی نماز منی میں پڑھ سکتے ہیں۔ (سنن النسائي، الحج، باب تقديم النساء والصبيان إلي منازلهم بمزدلفة، حديث: 3035)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3025   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 622  
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ طلوع آفتاب سے پہلے کنکریاں نہ مارو۔ اسے نسائی کے علاوہ پانچوں نے روایت کیا ہے اس کی سند میں انقطاع ہے۔ [بلوغ المرام/حدیث: 622]
622 فوائد و مسائل:
➊ مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محقیقین نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور اس پر تفصیلی بحث کی ہے۔ جس سے تصحیح حدیث والی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے، لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد اور متابعات کی بنا پر قابل عمل ہے۔ «والله اعلم»
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [الموسوعة الحديثه مسند امام احمد 505، 504/3، والارواء الباني 276/4]
➋ دس ذوالحجہ کو سورج طلوع ہونے کے بعد کنکریاں مارنا مسنون ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ذوالحجہ کو فجر کی نماز مزدلفہ میں ادا کی۔ اس کے بعد خوب روشنی ہو جانے تک ذکر و اذکار میں مشغول رہے، پھر سورج طلوع ہونے سے پہلے مزدلفہ سے منیٰ کی طرف روانہ ہوئے او ر سورج طلوع ہونے کے بعد بڑے جمرے پر کنکریاں ماریں۔ [صحيح مسلم، الحج، حديث نمبر 1218:، و سنن ابن ماجه، المناسك باب حجةرسول صلى الله عليه وسلم، حديث نمبر: 3074]
➌ جن روایات میں سورج طلوع ہونے سے قبل کنکریاں مارنے کا ذکر ہے تو یہ صرف عورتوں، بچوں اور غلاموں کے لیے ہے۔ جو ان کی خدمت کے لیے ہوں۔ ان کے علاوہ دس ذوالحجہ کو کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ طلوع فجر سے پہلے کنکریاں مارے جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ «والله اعلم»
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 622   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 893  
´مزدلفہ سے کمزوروں (عورتوں اور بچوں) کو رات ہی میں بھیج دینے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں میں سے کمزوروں (یعنی عورتوں اور بچوں) کو پہلے ہی روانہ کر دیا، اور آپ نے (ان سے) فرمایا: جب تک سورج نہ نکل جائے رمی جمار نہ کرنا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 893]
اردو حاشہ:
1؎:
اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں اور بچوں کو مزدلفہ سے رات ہی میں منیٰ بھیج دینا جائز ہے تاکہ وہ بھیڑ بھاڑ سے پہلے کنکریاں مار کر فارغ ہو جائیں لیکن سورج نکلنے سے پہلے کنکریاں نہ ماریں،
ابن عباس کی ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ ہماری رانوں پر دھیرے سے مارتے تھے اور فرماتے تھے:
اے میرے بچو جمرہ پرکنکریاں نہ مارنا جب تک کہ سورج نہ نکل جائے،
یہی قول راجح ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 893