صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ -- کتاب: حج کے مسائل کا بیان
21. بَابُ مَا لاَ يَلْبَسُ الْمُحْرِمُ مِنَ الثِّيَابِ:
باب: محرم کو کون سے کپڑے پہننا درست نہیں۔
حدیث نمبر: 1542
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَجُلًا، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا يَلْبَسُ الْمُحْرِمُ مِنَ الثِّيَابِ؟ , قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَلْبَسُ الْقُمُصَ , وَلَا الْعَمَائِمَ , وَلَا السَّرَاوِيلَاتِ , وَلَا الْبَرَانِسَ , وَلَا الْخِفَافَ، إِلَّا أَحَدٌ لَا يَجِدُ نَعْلَيْنِ فَلْيَلْبَسْ خُفَّيْنِ وَلْيَقْطَعْهُمَا أَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ، وَلَا تَلْبَسُوا مِنَ الثِّيَابِ شَيْئًا مَسَّهُ الزَّعْفَرَانُ أَوْ وَرْسٌ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ ایک شخص نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! محرم کو کس طرح کا کپڑا پہننا چاہئے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہ کرتہ پہنے، نہ عمامہ باندھے، نہ پاجامہ پہنے، نہ باران کوٹ، نہ موزے۔ لیکن اگر اس کے پاس جوتی نہ ہو تو وہ موزے اس وقت پہن سکتا ہے جب ٹخنوں کے نیچے سے ان کو کاٹ لیا ہو۔ (اور احرام میں) کوئی ایسا کپڑا نہ پہنو جس میں زعفران یا ورس لگا ہوا ہو۔ ابوعبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ محرم اپنا سر دھو سکتا ہے لیکن کنگھا نہ کرے۔ بدن بھی نہ کھجلانا چاہئے او جوں سر اور بدن سے نکال کر زمین پر ڈالی جا سکتی ہے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 315  
´حالت احرام میں ممنوع کام`
«. . . 219- وبه: أن رجلا سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما يلبس المحرم من الثياب؟ فقال صلى الله عليه وسلم: لا تلبسوا القمص ولا العمائم ولا السراويلات ولا البرانس ولا الأخفاف، إلا أحدا لا يجد نعلين فليلبس خفين وليقطعهما أسفل من الكعبين، ولا تلبسوا من الثياب شيئا مسه الزعفران ولا الورس. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: احرام باندھنے والا کون سے کپڑے پہنے گا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (حالتِ احرام میں) نہ قمیضیں پہنو اور نہ عمامے (پگڑیاں باندھو)، نہ شلواریں پہنو اور نہ ٹوپیاں (یا سر کے رومال) اور نہ بند جوتے (موزے) پہنو سوائے اس کے کہ اگر کسی کے پاس کھلے جوتے نہ ہوں تو موزے (بوٹ) پہن لے اور ٹخنوں سے نیچے والے حصے کو کاٹ دے۔ کپڑوں میں سے ایسا کوئی کپڑا نہ پہنو جس پر زعفران یا ورس (ایک خوش بودار بوٹی) لگی ہو ئی ہو . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 315]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1542، ومسلم 1177، من حديث مالك به]
تفقه
➊ احرام دو سفید (اَن سلی) چادروں کو کہتے ہیں جن میں سے ایک کو حج یا عمرہ کرنے والا بطورِ ازار باندھتا ہے اور دوسری چادر کو اوڑھ لیتا ہے، یہ حکم مردوں کے لئے ہے۔ عورتوں کا عام لباس ہی ان کا احرام ہے۔
➋ اس حدیث میں جن اشیاء سے حالتِ احرام میں منع کیا گیا ہے، اس پر اتفاق ہے کہ یہ ممنوع ہیں۔
➌ احرام کے دوران میں ممنوع کام تین طرح کے ہیں:
قسم اول: درج ذیل کام، مردوں اور عورتوں دونوں پر (حالت احرام میں) حرام ہیں:
① سر اور سارے جسم کے کسی حصے سے بال مونڈنا یا جان بوجھ کر گرانا۔ (اگر سر یا داڑھی کے بعض بال خارش کے دوران میں گر جائیں تو کوئی گناہ نہیں اور نہ اس سے دم واجب آتا ہے)
② ہاتھوں اور پاؤں کے ناخن تراشنا۔ [نيز ديكهئیے ح224]
③ احرام باندھنے کے بعد جسم یا (احرام کے) کپڑے پر خوشبو لگانا۔
(اپنی بیوی سے) جماع کرنا یا جماع کی طرف دعوت دینے والی حرکات کرنا مثلاً: نکاح کرنا یا باندھنا، شہوت سے دیکھنا یا بوسے لینا۔ وغیرہ
(حلال جانوروں کا) شکار کرنا۔
⑥ دستانے پہننا۔
قسم دوم:
درج ذیل چیزیں صرف مردوں پر حرام ہیں عورتوں پر حرام نہیں ہیں:
① سلے ہوئے کپڑے پہننا مثلاً بنیان، (انڈروئیر، پاجامہ) شلوار وغیرہ۔
② کسی چپکی ہوئی چیز (مثلاً ٹوپی، رومال وغیرہ) کے ساتھ سر کو ڈھانپنا۔
قسم سوم:
عورتوں پر (حالتِ احرام میں) درج ذیل کام حرام ہیں:
① نقاب پہننا، اسے عربی میں برقع بھی کہتے ہیں۔ (عورتوں پر میقات سے گزرنے کے بعد دستانے پہننا اور نقاب اوڑھنا حرام ہے) عورت اپنے ہاتھ کپڑے وغیرہ سے ڈھانپ سکتی ہے۔ اگر اجنبی مرد نزدیک ہوں تو ان سے اپنا چہرہ اور دونوں ہتھیلیاں چھپانا واجب (یا افضل) ہے کیونکہ یہ عورت (پر لازم کیا گیا یا جائز قرار دیا گیا) ہے۔ [حاجي كے شب و روز ص33، 34]
➍ مزید تفصیل کے لیے دیکھئے حاجی کے شب وروز [ص 15، 29، 33، 47، 56، 76]
➎ قاسم بن محمد بن ابی بکر نے فرمایا: (حالت احرام میں) ہمیان (روپے پیسے کی تھیلی یا پٹی باندھنا، لٹکانا) جائز ہے۔ [ابن ابي شيبه فى المصنف 3/393 ح15448، وسنده صحيح]
مجاہد بھی اسے جائز سمجھتے تھے۔ [ابن ابي شيبه: 15453، وسنده صحيح]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 219   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 596  
´احرام اور اس کے متعلقہ امور کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا احرام باندھنے والا کیا لباس پہنے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ قمیص، پگڑی، شلوار و پاجامہ، کٹ ٹوپ اور موزے نہ پہنے۔ لیکن اگر کسی شخص کے پاس جوتے نہیں تو وہ موزے پہن لے اور اسے چاہیئے کہ دونوں کو ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ لے اور ایسا کوئی کپڑا نہ پہنے جسے زعفران اور کیسو (ایک زرد رنگ کی خوشبودار بوٹی) لگا ہوا ہو۔ (بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔ [بلوغ المرام/حدیث: 596]
596 لغوی تشریح:
«الْعَمَائِم» یہ عمامہ کی جمع ہے جو سر پر لپیٹا جاتا ہے۔
«السَّرَاوِيل» شلوار۔
«الْبَرَانِسَ» یہ «برنس» کی جمع ہے۔ برنس کی با اور نون پر ضمہ اور دونوں کے درمیان را ساکن ہے۔ یہ ہر اس کپڑے کو کہتے ہیں جس کا کچھ حصہ ٹوپی وغیرہ پر مشتمل ہو، خواہ کوئی زرہ یا جبہ یا اوورکوٹ وغیرہ ہو۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد وہ لمبی ٹوپی ہے جو ابتدائے اسلام میں حج کرنے والے پہنتے تھے۔
«الْخِفِافَ» خا کے نیچے زیر ہے۔ «خف» کی جمع ہے، یعنی موزے۔
«فَلْيَقْطَعْهُمَا أسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ» انہیں ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ دے تاکہ وہ جوتے کہ حکم میں ہو جائیں۔ اور اس سے مقصود یہ ہے کہ احرام کے دوران میں ٹخنے ننگے رہیں۔ اور کعب سے مراد وہ ابھری ہوئی دو ہڈیاں ہیں جو پاؤں اور پنڈلی کے جوڑ کے قریب دائیں بائیں ہوتی ہیں۔
«اَلْوَرْس» واؤ پر زبر اور را ساکن ہے۔ زرد رنگ کی خوشبو دار گھاس جس میں کپڑے رنگے جاتے ہیں۔ زعفران اور ورس کے رنگ سے رنگے ہوئے لباس کی ممانعت اس لیے ہے کہ ان میں خوشبو ہوتی ہے۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ احرام کے وقت قمیص، پاجامہ، شلوار، ٹوپی، برانڈی اور موزے پہننا درست نہیں۔
➋ جوتے اگر میسر نہ ہوں، صرف موزے ہوں تو اس حدیث کی رو سے انہیں ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ لینا چاہیے، تاہم فقہا کے مابین اس بارے میں اختلاف ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ موزے کو پہننے کو جائز قرار دیتے ہیں اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں موزوں کو کاٹنے کا حکم منسوخ ہے کیونکہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث ابتدائے احرام کے وقت تھی اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں کاٹنے کا حکم نہیں اور یہ حکم آپ نے عرفات میں بیان فرمایا تھا، اس لیے کاٹنے کا حکم منسوخ ہے۔ اور یہی رائے راجح اور درست معلوم ہوتی ہے، نیز شیخ البانی رحمہ اللہ اور سعودی علمائے کرام کی بھی یہی رائے ہے۔ «والله اعلم»
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [فتاويٰ اسلاميه، اردو 331/2]
امام احمد رحمہ اللہ اور اکثر شوافع چادر نہ ہونے کی صورت میں مطلقاً شلوار پہننے کے قائل ہیں اور ان کا استدلال بھی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سے ہے جبکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ اس کے قطعاً قائل نہیں۔ البتہ امام محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ اور بعض شوافع کا کہنا ہے کہ اگر چادر میسر نہ ہو شلوار کو پھاڑ کر چادر نما بنا کر پہننا جائز ہے، مگر ان کا یہ قول محض قیاس پر مبنی ہے جس پر کوئی نص نہیں، اس لیے شلوار کے بارے میں صحیح موقف امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ ہی کا معلوم ہوتا ہے کہ چادر نہ ہونے کی بنا پر احرام میں شلوار پہننا جائز ہے۔
➍ زعفران اور ورس سے رنگا ہوا لباس بھی احرام میں جائز نہیں۔ یہ ممانعت رنگ کی وجہ سے نہیں بلکہ خوشبو کی وجہ سے ہے کیونکہ احرام کے بعد خوشبو لگانا بالاتفاق حرام ہے، البتہ اگر اسے دھو کر اس کی خوشبو زائل کر دی جائے تب جائز ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 596   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 833  
´محرم کے لیے جن چیزوں کا پہننا جائز نہیں ان کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کھڑ ہو کر عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ ہمیں احرام میں کون کون سے کپڑے پہننے کا حکم دیتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ قمیص پہنو، نہ پاجامے، نہ عمامے اور نہ موزے، الا یہ کہ کسی کے پاس جوتے نہ ہوں تو وہ خف (چمڑے کے موزے) پہنے اور اسے کاٹ کر ٹخنے سے نیچے کر لے ۱؎ اور نہ ایسا کوئی کپڑا پہنو جس میں زعفران یا ورس لگا ہو ۲؎، اور محرم عورت نقاب نہ لگائے اور نہ دستانے پہنے ۳؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 833]
اردو حاشہ:
1؎:
جمہور نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے خف (چمڑے کے موزوں) کے کاٹنے کی شرط لگائی ہے لیکن امام احمد نے بغیر کاٹے خف (موزہ) پہننے کو جائز قرار دیا ہے کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ((مَنْ لَمْ يَجِدْ نَعْلَيْنِ،
فَلْيَلْبَسْ خُفَّيْنِ)
)
جو بخاری میں آئی ہے مطلق ہے،
لیکن جمہور نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہاں مطلق کو مقید پر محمول کیا جائے گا،
حنابلہ نے اس روایت کے کئی جوابات دیئے ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی یہ روایت منسوخ ہے کیونکہ یہ احرام سے پہلے مدینہ کا واقعہ ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت عرفات کی ہے،
اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہا کی روایت حجت کے اعتبار سے ابن عباس کی روایت سے بڑھی ہوئی ہے کیونکہ وہ ایسی سند سے مروی ہے جو أصح الاسانید ہے۔

2؎:
ایک زرد رنگ کی خوشبودار گھاس ہے جس سے کپڑے رنگے جاتے تھے،
اس بات پر اجماع ہے کہ حالتِ احرام میں مرد کے لیے حدیث میں مذکور یہ کپڑے پہننے جائز نہیں ہیں،
قمیص اور سراویل (پاجامے) میں تمام سلے ہوے کپڑے داخل ہیں،
اسی طرح عمامہ اور خفین سے ہر وہ چیز مراد ہے جو سر اور قدم کو ڈھانپ لے،
البتہ پانی میں سر کو ڈبونے یا ہاتھ یا چھتری سے سر کو چھپانے میں کوئی حرج نہیں،
عورت کے لیے حالت احرام میں وہ تمام کپڑے پہننے جائز ہیں جن کا اس حدیث میں ذکر ہے البتہ وہ ورس اور زعفران میں رنگے ہوئے کپڑ ے نہ پہنے۔

3؎:
محرم عورت کے لیے نقاب پہننا منع ہے،
مگر اس حدیث میں جس نقاب کا ذکر ہے وہ چہرے پر باندھا جاتا تھا،
برصغیر ہند و پاک کے موجودہ برقعوں کا نقاب چادر کے پلو کی طرح ہے جس کو ازواج مطہرات مردوں کے گزرتے وقت چہروں پر لٹکا لیا کرتی تھیں اس لیے اس نقاب کو عورتیں بوقت ضرورت چہرے پر لٹکا سکتی ہیں اور چونکہ اس وقت حج میں ہروقت اجنبی مردوں کا سامنا پڑتا ہے اس لیے ہر وقت اس نقاب کو چہرے پرلٹکائے رکھ سکتی ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 833   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1542  
1542. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!محرم کون سے کپڑے پہنے؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: محرم قمیص، پگڑی، شلوار، ٹوپی، اور موزے نہ پہنے۔ ہاں اگر جوتا نہ ملے تو موزے پہن لے لیکن انھیں ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ لے اور ایسا کپڑا بھی نہ پہنو جسے زعفران یا ورس لگی ہوئی ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1542]
حدیث حاشیہ:
ورس ایک زرد گھاس ہوتی ہے خوشبودار اوراس پرسب کا اتفاق ہے کہ محرم کو یہ کپڑے پہننے ناجائزہیں۔
ہر سلا ہوا کپڑا پہننا مرد کو احرام میں ناجائز ہے لیکن عورتوں کو درست ہے۔
خلاصہ یہ کہ ایک لنگی اور ایک چادر، مرد کا یہی احرام ہے۔
یہ ایک فقیری لباس ہے، اب یہ حاجی اللہ کا فقیربن گیا، اس کو اس لباس فقر کا تا زندگی لحاظ رکھنا ضروری ہے۔
ا س موقع پر کوئی کتنا ہی بڑا بادشاہ مالدار کیوں نہ ہو سب کو یہی لباس زیب تن کر کے مساوات انسانی کا ایک بہترین نمونہ پیش کرنا ہے اور ہر امیر وغریب کو ایک ہی سطح پر آجانا ہے تاکہ وحدت انسانی کا ظاہراً اور باطناً بہتر مظاہرہ ہوسکے اور امراء کے دماغوں سے نخوت امیری نکل سکے اور غرباء کو تسلی واطمینان ہوسکے۔
الغرض لباس احرام کے اندر بہت سے روحانی ومادی وسماجی فوائد مضمر ہیں مگر ان کا مطالعہ کرنے کے لئے دیدہ بصیرت کی ضرورت ہے اور یہ چیز ہر کسی کو نہیں ملتی۔
﴿إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ﴾
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1542   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1542  
1542. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!محرم کون سے کپڑے پہنے؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: محرم قمیص، پگڑی، شلوار، ٹوپی، اور موزے نہ پہنے۔ ہاں اگر جوتا نہ ملے تو موزے پہن لے لیکن انھیں ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ لے اور ایسا کپڑا بھی نہ پہنو جسے زعفران یا ورس لگی ہوئی ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1542]
حدیث حاشیہ:
(1)
ورس ایک زرد رنگ کی خوشبودار گھاس ہے جس میں کپڑوں کو رنگا جاتا تھا۔
چونکہ اس میں رنگے ہوئے کپڑوں میں خوشبو اور زینت ہے، اس لیے محرم کے لیے ان کا استعمال درست نہیں۔
اسی طرح زعفران میں رنگے ہوئے کپڑے بھی محرم کے لیے ناجائز ہیں۔
گویا احرام ایک سادہ اور فقیرانہ لباس ہے، اسے زیب تن کر کے انسان کو اللہ تعالیٰ کا فقیر بننا چاہیے۔
اس موقع پر جتنا بڑا بادشاہ یا امیر ہو اسے یہی احرام کی دو چادریں پہننا ہوتی ہیں تاکہ وحدتِ انسانی کا مظاہرہ ہو سکے۔
(2)
قمیص اور شلوار سے مراد ہر وہ کپڑا ہے جو بدن کی قد وقامت کے مطابق سلا ہوا ہو، نیز ٹوپی اور پگڑی سے مراد ہر وہ کپڑا ہے جس سے سر ڈھانپا جائے اور موزوں سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے پاؤں چھپائے جائیں۔
(3)
احرام کے متعلق مذکورہ شرائط صرف مردوں کے لیے ہیں، البتہ عورتیں صرف زعفرانی اور ورس زدہ کپڑوں سے اجتناب کریں، اس کے علاوہ نقاب باندھنے پر پابندی ہے لیکن جب غیر محرم سامنے آئے تو پردہ کرنا ضروری ہے۔
(فتح الباري: 507/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1542