صحيح البخاري
كِتَاب الْوُضُوءِ -- کتاب: وضو کے بیان میں
13. بَابُ خُرُوجِ النِّسَاءِ إِلَى الْبَرَازِ:
باب: عورتوں کا قضائے حاجت کے لیے باہر نکلنے کا کیا حکم ہے؟
حدیث نمبر: 146
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُنَّ يَخْرُجْنَ بِاللَّيْلِ إِذَا تَبَرَّزْنَ إِلَى الْمَنَاصِعِ وَهُوَ صَعِيدٌ أَفْيَحُ، فَكَانَ عُمَرُ يَقُولُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: احْجُبْ نِسَاءَكَ، فَلَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُ، فَخَرَجَتْ سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً مِنَ اللَّيَالِي عِشَاءً، وَكَانَتِ امْرَأَةً طَوِيلَةً، فَنَادَاهَا عُمَرُ: أَلَا قَدْ عَرَفْنَاكِ يَا سَوْدَةُ حِرْصًا عَلَى أَنْ يَنْزِلَ الْحِجَابُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ آيَةَ الْحِجَابِ.
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے ابن شہاب کے واسطے سے نقل کیا، وہ عروہ بن زبیر سے، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں رات میں مناصع کی طرف قضاء حاجت کے لیے جاتیں اور مناصع ایک کھلا میدان ہے۔ تو عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کرتے تھے کہ اپنی بیویوں کو پردہ کرائیے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل نہیں کیا۔ ایک روز رات کو عشاء کے وقت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ جو دراز قد عورت تھیں، (باہر) گئیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں آواز دی (اور کہا) ہم نے تمہیں پہچان لیا اور ان کی خواہش یہ تھی کہ پردہ (کا حکم) نازل ہو جائے۔ چنانچہ (اس کے بعد) اللہ نے پردہ (کا حکم) نازل فرما دیا۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:146  
146. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ نبی ﷺ کی ازواج مطہرات رات کو قضائے حاجت کے لیے مناصع کی طرف جاتی تھیں، اس سے مراد کھلا میدان ہے۔ حضرت عمر ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کرتے تھے کہ آپ اپنی بیویوں کو پردے کا حکم دیں، لیکن رسول اللہ ﷺ ایسا نہ فرماتے، چنانچہ ایک رات عشاء کے وقت نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت سودہ بنت زمعہ (قضائے حاجت کے لیے) باہر نکلیں اور وہ قد آور تھیں تو حضرت عمر ؓ نے انہیں آواز دی اور کہا: اے سودہ! ہم نے تمہیں پہچان لیا ہے۔ (حضرت عمر نے یہ اس لیے کہا) ان کی خواہش تھی کہ پردے کا حکم نازل ہو، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے پردے کا حکم نازل فرما دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:146]
حدیث حاشیہ:

عربوں میں یہ رواج تھا کہ وہ قضائے حاجت کے لیے باہرمیدانی علاقوں کا رخ کرتے تھے حتی ٰ کہ ازواج مطہرات رضوان اللہ علیهن اجمعین بھی اس مقصد کے لیے باہر جانے کی عادی تھیں۔
عربوں کے ہاں مکانات میں قضائے حاجت کے انتظام کو ناپسند خیال کیاجاتا تھا۔
اس عنوان میں بتایا گیا ہے کہ ازواج مطہرات اگر اپنی ضرورت کے پیش نظر باہرجائیں تو اس کی کیا صورت ہو؟ اگر دن کے وقت جائیں یا بے حجاب نکلیں تو یہ ان کے خلاف شان ہے، چنانچہ اس کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ عورتیں ایک الگ میدان میں رات کے وقت قضائے حاجت کے لیے جاتی تھیں اورانھوں نے اپنی عادت بھی کچھ ایسی بنالی تھی کہ دن کے اوقات میں اس کی ضرورت ہی پیش نہ آتی تھی۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے اسی صورت کا جواز ثابت فرمایا ہے۔

پردے سے متعلق آیات کے نزول میں کچھ تعارض ہے۔
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک آیت حجاب نازل نہیں ہوئی تھیں جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت حجاب نازل ہوچکی تھی، (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4795)
نیز اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نزول آیت سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقصد پورا ہو گیا، جبکہ دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا منشا پورا نہ ہوسکا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمھیں قضائے حاجت کے لیے باہرجانے کی اجازت ہے۔
یہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے منشا کے خلاف ہے۔
اس کے علاوہ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا واقعہ آیت حجاب کے نزول کا سبب بنا جبکہ دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت حجاب کا نزول سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ولیمے کے دن ہوا، چنانچہ صحیح بخاری میں اس کی صراحت موجود ہے۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4791)
دراصل حجاب کی دو قسمیں ہیں:
حجاب وجوہ:
(چہرے کا پردہ)
عورت جب غیر محرم کے سامنے آئے تو اپنا چہرہ ڈھانپ کر آئے۔
حجاب اشخاص:
(پورے وجود کا پردہ)
عورت کی شخصیت ہی نظر نہ آئے،یعنی گھر سے باہر نہ نکلے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہر قسم کے لوگ آتے ہیں، آپ اپنی ازواج مطہرات رضوان اللہ عليهن اجمعین کو پردے کا حکم فرما دیں، تو آیت حجاب نازل ہوئی۔
اس سے ان کی خواہش پوری ہوگئی۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4790)
آیت حجاب سورۃ الاحزاب: 53 ہے اور یہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ولیمے کے موقع پر نازل ہوئی جیسا کہ پہلے بیان ہوا ہے یہ حجاب وجوہ ہے۔
اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دوسری خواہش تھی کہ حجاب وجوہ کی طرح حجاب اشخاص کا حکم بھی آجائے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کوراستے میں ٹوکنا، اسی تناظرمیں تھا لیکن اس سلسلے میں ان کی خواہش پوری نہ ہوسکی بلکہ بذریعہ وحی بتایا گیا کہ عورتوں کو قضائے حاجت کے لیے باہر جانے کی اجازت ہے۔
اس تفصیل سے تضاد کی تمام صورتیں ختم ہوجاتی ہیں، تاہم اس کے بعد گھروں میں قضائے حاجت کے لیے بندوبست کر دیا گیا۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ غیرت تھی بلکہ آپ کے اندر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہیں زیادہ غیرت تھی، لیکن آپ اللہ کی وحی کے بغیر کسی مصلحت پر عمل نہیں فرمانا چاہتے تھے، اس لیے آپ نے ضرورت محسوس کرنے کے باوجود وحی کے آنے تک پردے کی بابت کوئی حکم نہیں دیا۔
(فتح الباري: 1/ 327' 328)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 146