صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ -- کتاب: حج کے مسائل کا بیان
22. بَابُ الرُّكُوبِ وَالاِرْتِدَافِ فِي الْحَجِّ:
باب: حج کے لیے سوار ہونا یا سواری پر کسی کے پیچھے بیٹھنا درست ہے۔
حدیث نمبر: 1543
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ يُونُسَ الْأَيْلِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا،" أَنَّ أُسَامَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ رِدْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عَرَفَةَ إِلَى الْمُزْدَلِفَةِ، ثُمَّ أَرْدَفَ الْفَضْلَ مِنْ الْمزْدَلِفَةِ إِلَى مِنًى، قَالَ: فَكِلَاهُمَا قَالَ: لَمْ يَزَلِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُلَبِّي حَتَّى رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ".
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، ان سے وہب بن جریر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے والد جریر بن حازم نے بیان کیا۔ ان سے یونس بن زید نے، ان سے زہری نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے اور ان سے زہری نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ عرفات سے مزدلفہ تک اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر مزدلفہ سے منیٰ تک فضل بن عباس رضی اللہ عنہما پیچھے بیٹھ گئے تھے، دونوں حضرات نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ عقبہ کی رمی تک برابر تلبیہ کہتے رہے۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1543  
1543. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ عرفات سے مزدلفہ تک حضرت اسامہ ؓ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ سوار تھے۔ پھر مزدلفہ سے منیٰ تک آپ نے حضرت فضل بن عباس ؓ کو اپنے پیچھے بٹھایا۔ راوی کہتے ہیں: دونوں حضرات کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ برابر لبیک کہتے رہے حتیٰ کہ آپ نے جمرہ عقبہ کو کنکریاں ماریں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1543]
حدیث حاشیہ:
(1)
اگرچہ اس حدیث میں میدان عرفات سے مزدلفہ اور مزدلفہ سے منیٰ تک کسی کو سواری پر بٹھانے کا ذکر ہے لیکن پورے سفر حج میں ایسا کیا جا سکتا ہے۔
ابن منیر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت فضل بن عباس اور اسامہ بن زید ؓ کو اپنے پیچھے باری باری اس لیے بٹھایا تھا تاکہ اس دوران میں جو احکام حج اللہ کی طرف سے نازل ہوں یا رسول اللہ ﷺ انہیں بجا لائیں یہ حضرات اچھی طرح انہیں یاد کر کے دوسروں تک پہنچائیں۔
(فتح الباري: 510/3) (2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تلبیہ دسویں تاریخ کو جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد ختم کر دینا چاہیے، چنانچہ فضل بن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں میدان عرفات سے آپ کے ہمراہ تھا۔
آپ تلبیہ کہتے رہے حتی کہ جمرہ عقبہ کو آخری کنکری مارنے کے بعد تلبیہ کہنا بند کر دیا۔
(صحیح ابن خزیمة: 282/4)
نیز اس حدیث سے سواری پر کسی دوسرے کو آپ پیچھے بٹھانے کا جواز ملتا ہے بشرطیکہ سواری کا جانور اس کا متحمل ہو۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1543