سنن ابي داود
كِتَاب الْمَنَاسِكِ -- کتاب: اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل
78. باب فِي رَمْىِ الْجِمَارِ
باب: رمی جمرات کا بیان۔
حدیث نمبر: 1969
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ" كَانَ يَأْتِي الْجِمَارَ فِي الْأَيَّامِ الثَّلَاثَةِ بَعْدَ يَوْمِ النَّحْرِ مَاشِيًا ذَاهِبًا وَرَاجِعًا، وَيُخْبِرُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَفْعَلُ ذَلِكَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ یوم النحر کے بعد تین دنوں میں جمرات کی رمی کے لیے پیدل چل کر آتے تھے اور پیدل ہی واپس جاتے اور وہ بتاتے تھے کہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کرتے تھے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 7727)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الحج 63 (899)، مسند احمد (2/114، 138، 156) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ رمی جمرات کے لئے پیدل چل کر آنا افضل ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 629  
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ سب سے قریبی جمرہ کو سات سنگریزے مارتے اور ہر کنکری مارتے وقت تکبیر کہتے۔ پھر آگے تشریف لے جاتے اور میدان میں آ کر کھڑے ہو جاتے اور قبلہ رخ ہو کر طویل قیام فرماتے اور اپنے ہاتھ اوپر اٹھا کر دعا کرتے۔ پھر جمرہ وسطی (درمیانہ شیطان) کو کنکریاں مارتے۔ پھر بائیں جانب ہو جاتے اور میدان میں آ کر قبلہ رخ کھڑے ہو جاتے۔ پھر اپنے ہاتھ اوپر اٹھاتے اور دعا فرماتے اور طویل قیام فرماتے۔ اس کے بعد جمرہ عقبہ کو کنکریاں وادی کی نچلی جگہ سے مارتے مگر وہاں قیام نہ فرماتے۔ پھر واپس تشریف لے آتے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح عمل کرتے دیکھا ہے۔ (بخاری) [بلوغ المرام/حدیث: 629]
629 لغوی تشریح:
«الجمرة الدنيا» «الدنيا» کے دال پر ضمہ اور کسرہ دونوں جائز ہیں۔ اس کے معنی قریب کے ہیں۔ یہ مسجد خیف کے قریب ہے اور یہ پہلا جمرہ ہے جسے ایام تشریق میں کنکریاں ماری جاتی ہیں۔
«ثمه يسهل» «يسهل» کی یا پر ضمہ ہے۔ اس کے معنی ہیں: سھل کی طرف جانا اور وہ زمین کے نشیبی حصے کو کہتے ہیں۔
«يرمي الوسطيٰ» «وسطيٰ» سے مراد جمرہ ثانیہ (دوسرا جمرہ) ہے جو دونوں جمروں کے درمیان ہے۔

فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمروں کو کنکریاں مار کر وہیں کھڑے نہ رہتے بلکہ وہاں سے چل کر میدان میں آ کھڑے ہوتے اور پورے اطمینان کے ساتھ قبلہ رخ ہو کر طویل دعا فرماتے، لہٰذا کنکریاں مارے جانے کے بعد وہیں کھڑے رہنا چاہیے بلکہ میدان میں کھلی جگہ آ کر ہاتھ اٹھا کر طویل دعا کرنی چاہیے۔ اس طرح حاجی ہجوم کی زد سے بھی محفوظ رہے گا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 629