صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ -- کتاب: حج کے مسائل کا بیان
32. بَابُ مَنْ أَهَلَّ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَإِهْلاَلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
باب: جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے احرام میں یہ نیت کی جو نیت نبی کریم کی ہے۔
قَالَهُ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
‏‏‏‏ یہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے۔
حدیث نمبر: 1557
حَدَّثَنَا الْمَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ عَطَاءٌ: قَالَ جَابِرٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:" أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنْ يُقِيمَ عَلَى إِحْرَامِهِ"، وَذَكَرَ قَوْلَ سُرَاقَةَ، وَزَادَ مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بِمَا أَهْلَلْتَ يَا عَلِيُّ؟ , قَالَ: بِمَا أَهَلَّ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَأَهْدِ وَامْكُثْ حَرَامًا كَمَا أَنْتَ.
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے، ان سے عطاء بن ابی رباح نے بیان کیا کہ کہ جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنے احرام پر قائم رہیں۔ انہوں نے سراقہ کا قول بھی ذکر کیا تھا۔ اور محمد بن ابی بکر نے ابن جریج سے یوں روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا علی! تم نے کس چیز کا احرام باندھا ہے؟ انہوں نے عرض کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کا احرام باندھا ہو (اسی کا میں نے بھی باندھا ہے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر قربانی کر اور اپنی اسی حالت پر احرام جاری رکھ۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1074  
´جب مسافر کسی مقام پر ٹھہرے تو کتنے دنوں تک قصر کر سکتا ہے؟`
عطاء کہتے ہیں کہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے مجھ سے میرے ساتھ کئی لوگوں کی موجودگی میں حدیث بیان کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ چار ذی الحجہ کی صبح تشریف لائے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1074]
اردو حاشہ:
فائدہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحجہ کو صبح کے وقت مکہ مکرمہ تشریف فرما ہوئے۔
اور یہاں سے یوم الترویہ (8 ذوالحجہ)
کو منیٰ کی طرف روانہ ہوئے۔
اس میں یہ ارشاد ہے کہ چاردن ٹھرنے کی صورت میں بھی دوگانہ ادا کیاجا سکتا ہے۔
الغرض قصر نماز کےلئے دنوں کے تعین میں یہ روایت پہلی روایت سے زیادہ واضح اور فیصلہ کن ہے۔
واللہ أعلم تاہم دونوں ہی موقف صحیح ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1074   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1789  
´حج افراد کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام نے حج کا احرام باندھا ان میں سے اس دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور طلحہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی کے پاس ہدی کے جانور نہیں تھے اور علی رضی اللہ عنہ یمن سے ساتھ ہدی لے کر آئے تھے تو انہوں نے کہا: میں نے اسی کا احرام باندھا ہے جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھا ہے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ حج کو عمرہ میں بدل لیں یعنی وہ طواف کر لیں پھر بال کتروا لیں اور پھر احرام کھول دیں سوائے ان لوگوں کے جن کے ساتھ ہدی ہو، تو لوگوں نے عرض کیا: کیا ہم منیٰ کو اس حال میں جائیں کہ ہمارے ذکر منی ٹپکا رہے ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا: اگر مجھے پہلے سے یہ معلوم ہوتا جو اب معلوم ہوا ہے تو میں ہدی نہ لاتا، اور اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتا تو میں بھی احرام کھول دیتا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1789]
1789. اردو حاشیہ:
➊ صحابہ کرام خوب سمجھتے تھے کہ دین و شریعت رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ا ور پیروی کانام ہے۔ اسی لیے حضرت علی نے احرام کی نیت میں یہ کہا کہ میرا احرام اور میری نیت وہی ہے جو رسول اللہ ﷺ کی ہے۔
➋ اور دوسری بات (کہ ہم منی کو اس حالت میں جائیں ......)کہنے کی وجہ یہ تھی کہ عبادت چونکہ انسان سے زہد و رغبت الی اللہ کا تقاضا کرتی ہے اور اعمال حج شروع ہونےمیں دو دن باقی تھے تو انہیں کامل حلت کچھ عجیب سی لگی۔ نیز رسول اللہ ﷺ خود بھی تو حلال نہیں ہوئے تھے۔ او روہ رسول اللہ ﷺ کی پیروی کے شائق تھے۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے اپنی مجبوری کی وضاحت کرکے صحابہ کرام کا اشکال دور فرما دیا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1789   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1557  
1557. حضرت عطاء ؒ سے روایت ہے کہ حضرت جابر ؓ نے کہا: نبی کریم ﷺ نے حضرت علی ؓ کو حکم دیا کہ وہ اپنے احرام پر قائم رہیں۔ اور انھوں نے سراقہ بن مالک ؓ کاقول بھی ذکر کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1557]
حدیث حاشیہ:
(1)
حج کے سلسلے میں مبہم نیت کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ تاکہ جواز کی صورت میں پیش آمدہ حالات و ظروف کو مدنظر رکھتے ہوئے اس میں تبدیلی کی جا سکے۔
امام بخارى ؒ کا رجحان اس طرف ہے کہ اس کا جواز صرف رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں تھا جیسا کہ ہم آئندہ تفصیل سے بیان کریں گے۔
(2)
اس کے متعلق امام بخاری ؒ نے حضرت جابر ؓ کی روایت انتہائی اختصار سے پیش کی ہے۔
ایک دوسری روایت میں تفصیل ہے:
حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ؓ نے حج کا احرام باندھا، لیکن رسول اللہ ﷺ اور حضرت طلحہ ؓ کے علاوہ کسی کے پاس قربانی کا جانور نہیں تھا، حضرت علی ؓ یمن سے آئے تو وہ اپنی قربانی کے جانور ساتھ لے کر آئے تھے اور ان کا احرام رسول اللہ ﷺ کے احرام جیسا تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے مکہ پہنچ کر فرمایا:
جو شخص اپنے ساتھ قربانی نہیں لایا وہ اس احرام کو عمرے میں بدل لے۔
طواف اور سعی کر کے حلال ہو جائے۔
اگر میرے ساتھ قربانی نہ ہوتی تو میں بھی ایسا ہی کرتا۔
(صحیح البخاري، العمرة، حدیث: 1785)
رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا:
وہ اپنے احرام کو جوں کا توں رکھے اور اسے قربانیوں میں شریک کر لیا۔
(صحیح البخاري، الشرکة، حدیث: 2506) (3)
اس حدیث میں اجمالی طور پر حضرت سراقہ ؓ کا ذکر بھی ہے۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ اس نے عرض کی:
اے اللہ کے رسول! احرام حج کو ختم کر کے عمرے میں بدل لینا پھر طواف اور سعی کر کے حلال ہو جانا صرف آپ کے (زمانہ مبارک کے)
ساتھ خاص ہے (یا آئندہ کے لیے بھی ایسا ہو سکتا ہے؟)
آپ ﷺ نے فرمایا:
نہیں! بلکہ ہمیشہ کے لیے ہے، یعنی عمرے کو حج میں داخل کر دیا گیا ہے۔
(صحیح البخاري، العمرة، حدیث: 1785)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1557