صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ -- کتاب: حج کے مسائل کا بیان
32. بَابُ مَنْ أَهَلَّ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَإِهْلاَلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
باب: جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے احرام میں یہ نیت کی جو نیت نبی کریم کی ہے۔
حدیث نمبر: 1559
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" بَعَثَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى قَوْمٍ بِالْيَمَنِ، فَجِئْتُ وَهُوَ بِالْبَطْحَاءِ، فَقَالَ: بِمَا أَهْلَلْتَ؟ , قُلْتُ: أَهْلَلْتُ كَإِهْلَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: هَلْ مَعَكَ مِنْ هَدْيٍ؟ , قُلْتُ: لَا، فَأَمَرَنِي، فَطُفْتُ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ أَمَرَنِي فَأَحْلَلْتُ فَأَتَيْتُ امْرَأَةً مِنْ قَوْمِي فَمَشَطَتْنِي أَوْ غَسَلَتْ رَأْسِي، فَقَدِمَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: إِنْ نَأْخُذْ بِكِتَابِ اللَّهِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُنَا بِالتَّمَامِ، قَالَ اللَّهُ: وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ سورة البقرة آية 196، وَإِنْ نَأْخُذْ بِسُنَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّهُ لَمْ يَحِلَّ حَتَّى نَحَرَ الْهَدْيَ".
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے قیس بن مسلم نے، ان سے طارق بن شہاب نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری نے کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری قوم کے پاس یمن بھیجا تھا۔ جب (حجۃ الوداع کے موقع پر) میں آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بطحاء میں ملاقات ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کس کا احرام باندھا ہے؟ میں نے عرض کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کا باندھا ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تمہارے ساتھ قربانی ہے؟ میں نے عرض کی کہ نہیں، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں بیت اللہ کا طواف، صفا اور مروہ کی سعی کروں چنانچہ میں اپنی قوم کی ایک خاتون کے پاس آیا۔ انہوں نے میرے سر کا کنگھا کیا یا میرا سر دھویا۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر ہم اللہ کی کتاب پر عمل کریں تو وہ یہ حکم دیتی ہے کہ حج اور عمرہ پورا کرو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور حج اور عمرہ پورا کرو اللہ کی رضا کے لیے۔ اور اگر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو لیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تک احرام نہیں کھولا جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی سے فراغت نہیں حاصل فرمائی۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1559  
1559. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے مجھے میری قوم کی طرف یمن بھیجا تو میں وہاں سے ایسے وقت میں واپس آیا جب آپ وادی بطحاء میں فروکش تھے۔ آپ نے مجھ سے پوچھا: تم نے کون سا احرام باندھا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ نبی کریم ﷺ کے مثل احرام باندھ دیاہے۔ آپ نے فرمایا: تمہارے پاس قربانی ہے؟ میں نے عرض کیا: نہیں!پھر میں نے آپ کے حکم کے مطابق بیت اللہ کاطواف کیا اور صفا مروہ کی سعی کی۔ پھر آپ نے مجھے احرام کھول دینے کا حکم دیا تو میں نے احرام کھول دیا۔ اس کے بعد میں اپنے گھر والوں میں سے ایک عورت کے پاس آیا، اس نے میرے بالوں میں کنگھی کی یا میرا سر دھویا۔ جب حضرت عمر ؓ خلیفہ ہوئے تو آئے اور فرمانے لگے: اگر ہم کتاب اللہ پر عمل کرتے ہیں تو وہ حج اور عمرہ پورا کرنے کاحکم دیتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: حج اور عمرے کواللہ کے لیے پورا کرو۔ اور اگر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1559]
حدیث حاشیہ:
حضرت عمرؓ کی رائے اس باب میں درست نہیں۔
آنحضرت ﷺ نے احرام نہیں کھولا اس کی وجہ بھی آپ نے خود بیان فرمائی تھی کہ آپ کے ساتھ ہدی تھی۔
جن کے ساتھ ہدی نہ تھی ان کا احرام خود آنحضرت ﷺ نے کھلوادیا۔
پس جہاں صاف صریح حدیث نبوی موجود ہو وہاں کسی کی بھی رائے قبول نہیں کی جاسکتی خواہ وہ حضرت عمر ؓ ہی کیوں نہ ہوں۔
حضرات مقلدین کو یہاں غور کرنا چاہئے کہ جب حضرت عمر ؓ جیسے خلیفہ راشدجن کی پیروی کرنے کا خاص حکم نبوی ہے اقتدو بالذین من بعدي أبي بکر وعمر حدیث کے خلاف قابل اقتداء نہ ٹھہرے تو اور کسی امام یا مجتہد کی کیا بساط ہے۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1559   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1559  
1559. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے مجھے میری قوم کی طرف یمن بھیجا تو میں وہاں سے ایسے وقت میں واپس آیا جب آپ وادی بطحاء میں فروکش تھے۔ آپ نے مجھ سے پوچھا: تم نے کون سا احرام باندھا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ نبی کریم ﷺ کے مثل احرام باندھ دیاہے۔ آپ نے فرمایا: تمہارے پاس قربانی ہے؟ میں نے عرض کیا: نہیں!پھر میں نے آپ کے حکم کے مطابق بیت اللہ کاطواف کیا اور صفا مروہ کی سعی کی۔ پھر آپ نے مجھے احرام کھول دینے کا حکم دیا تو میں نے احرام کھول دیا۔ اس کے بعد میں اپنے گھر والوں میں سے ایک عورت کے پاس آیا، اس نے میرے بالوں میں کنگھی کی یا میرا سر دھویا۔ جب حضرت عمر ؓ خلیفہ ہوئے تو آئے اور فرمانے لگے: اگر ہم کتاب اللہ پر عمل کرتے ہیں تو وہ حج اور عمرہ پورا کرنے کاحکم دیتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: حج اور عمرے کواللہ کے لیے پورا کرو۔ اور اگر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1559]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کہتے ہیں:
جب میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی کہ میرا احرام رسول اللہ ﷺ کے احرام جیسا ہے تو آپ نے دریافت فرمایا:
کیا تم اپنے ساتھ قربانی لائے ہو؟ میں نے کہا:
نہیں! اس پر آپ نے فرمایا:
بیت اللہ کا طواف کرو اس کے بعد صفا و مروہ کی سعی کر کے احرام کی پابندی سے حلال ہو جاؤ۔
چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4346)
دوسری روایت میں ہے کہ اس کے بعد میں اس کے مطابق لوگوں کو فتویٰ دیتا تھا کہ جس کے پاس قربانی نہ ہو وہ پہلے عمرہ کرے، پھر الگ سے ذوالحجہ کی آٹھویں تاریخ کو حج کا احرام باندھے لیکن جب حضرت عمر ؓ خلیفہ بنے تو میں نے ان سے اپنا موقف بیان کیا تو انہوں نے اس سے اختلاف کیا۔
(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1724)
حضرت عمر کی رائے تھے کہ حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں نہیں بدلنا چاہیے۔
دوسرے الفاظ میں وہ حج تمتع کے قائل نہیں تھے لیکن رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مقابلے میں حضرت عمر کی رائے سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا، پھر رسول اللہ ﷺ نے تو اس لیے احرام نہیں کھولا تھا کہ آپ کے ساتھ قربانی کا جانور تھا۔
بہرحال رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے مقابلے میں کسی کی رائے قبول نہیں کرنی چاہیے۔
(2)
الغرض امام بخاری ؒ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کی اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ مبہم احرام باندھا جا سکتا ہے جیسا کہ حضرت علی اور حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے اسی طرح کا احرام باندھا تھا لیکن ایسا کرنا صرف زمانہ نبوی کے ساتھ خاص تھا۔
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے دریافت کرنے پر حضرت علی ؓ کو ان کی نیت کے مطابق ان کے احرام پر برقرار رکھا گیا کیونکہ وہ قربانی کا جانور ساتھ لائے تھے اور حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کو طواف اور سعی کے بعد احرام کھول دینے کا حکم دیا کیونکہ ان کے ساتھ قربانی کا جانور نہیں تھا۔
اب چونکہ دین کی تکمیل ہو چکی ہے اور حج و عمرہ کے احرام واضح کر دیے گئے ہیں اور ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ﴿وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّـهِ﴾ (البقرة: 196: 2)
حج اور عمرے کو اللہ کے لیے پورا کرو۔
ان حالات میں کسی کو مبہم احرام باندھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
امام بخاری ؒ کے عنوان سے یہی اشارہ ملتا ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1559