صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ -- کتاب: حج کے مسائل کا بیان
34. بَابُ التَّمَتُّعِ وَالإِقْرَانِ وَالإِفْرَادِ بِالْحَجِّ، وَفَسْخِ الْحَجِّ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ:
باب: حج میں تمتع، قران اور افراد کا بیان اور جس کے ساتھ ہدی نہ ہو، اسے حج فسخ کر کے عمرہ بنا دینے کی اجازت ہے۔
حدیث نمبر: 1563
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ، قَالَ:" شَهِدْتُ عُثْمَانَ، وَعَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، وَعُثْمَانُ يَنْهَى عَنْ الْمُتْعَةِ وَأَنْ يُجْمَعَ بَيْنَهُمَا، فَلَمَّا رَأَى عَلِيٌّ أَهَلَّ بِهِمَا لَبَّيْكَ بِعُمْرَةٍ وَحَجَّةٍ، قَالَ: مَا كُنْتُ لِأَدَعَ سُنَّةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِقَوْلِ أَحَدٍ".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حکم نے، ان سے علی بن حسین (زین العابدین) نے اور ان سے مروان بن حکم نے بیان کیا کہ عثمان اور علی رضی اللہ عنہما کو میں نے دیکھا ہے۔ عثمان رضی اللہ عنہ حج اور عمرہ کو ایک ساتھ ادا کرنے سے روکتے تھے لیکن علی رضی اللہ عنہ نے اس کے باوجود دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھا اور کہا «لبيك بعمرة وحجة» آپ نے فرمایا تھا کہ میں کسی ایک شخص کی بات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو نہیں چھوڑ سکتا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1563  
1563. حضرت مردان بن حکم سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ کی ایک مجلس میں موجود تھا۔ حضرت عثمان ؓ نے حج تمتع اور حج عمرہ اکٹھا کرنے(حج قرآن) سے منع کیا۔ حضر ت علی ؓ نے جب یہ دیکھا تو حج اورعمرہ دونوں کاایک ساتھ احرام باندھا اور کہا: "لبيك بعمرة وحجة" پھر فرمایا کہ میں نبی کریم ﷺ کی سنت کو کسی کے کہنے سے نہیں چھوڑوں گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1563]
حدیث حاشیہ:
حضرت عثمان ؓ شاید حضرت عمر ؓ کی تقلید سے تمتع کو برا سمجھتے تھے ان کو بھی یہی خیال ہوا آنحضرت ﷺ نے حج کو فسخ کرا کر جو حکم عمرہ کا دیا تھا وہ خاص تھا صحابہ ؓ سے۔
بعضوں نے کہا مکروہ تنزیہی سمجھا اور چونکہ حضرت عثمان ؓ کا یہ خیال حدیث کے خلاف تھا۔
اس لیے حضرت علی ؓ نے اس پر عمل نہیں کیا اور یہ فرمایا کہ میں آنحضرت ﷺ کی حدیث کو کسی کے قول سے نہیں چھوڑسکتا۔
مسلمان بھائیو! ذرا حضرت علی ؓ کے اس قول کو غور سے دیکھو، حضرت عثمان ؓ خلیفہ وقت اور خلیفہ بھی کیسے؟ خلیفہ راشد اور امیرالمؤمنین۔
لیکن حدیث کے خلاف ان کا قول پھینک دیا گیا اور خود ان کے سامنے ان کا خلاف کیا گیا۔
پھر تم کو کیا ہوگیا ہے جو تم ابو حنیفہ یا شافعی کے قول کو لیے رہتے ہو اور صحیح حدیث کے خلاف ان کے قول پر عمل کرتے ہو، یہ صریح گمراہی ہے۔
خدا کے لیے اس سے باز آؤ اور ہمارا کہنا مانو ہم نے جو حق بات تھی وہ تم کو بتادی آئندہ تم کو اختیار ہے۔
تم قیامت کے دن جب آنحضرت ﷺ کے سامنے کھڑے ہوگے اپنا عذر بیان کرلینا والسلام (مولانا وحیدالزمان مرحوم)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1563   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1563  
1563. حضرت مردان بن حکم سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ کی ایک مجلس میں موجود تھا۔ حضرت عثمان ؓ نے حج تمتع اور حج عمرہ اکٹھا کرنے(حج قرآن) سے منع کیا۔ حضر ت علی ؓ نے جب یہ دیکھا تو حج اورعمرہ دونوں کاایک ساتھ احرام باندھا اور کہا: "لبيك بعمرة وحجة" پھر فرمایا کہ میں نبی کریم ﷺ کی سنت کو کسی کے کہنے سے نہیں چھوڑوں گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1563]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت عثمان اور حضرت علی ؓ کا یہ اجتماع مقام عسفان میں ہوا۔
(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1569) (2)
حضرت عثمان ؓ تمتع اور قران دونوں سے منع کرتے تھے تاکہ لوگ حج افراد کو بالکل ہی نظر انداز نہ کر دیں۔
یہ بھی احتمال ہے کہ آپ صرف حج قران سے منع کرتے ہوں اور اس کو تمتع اس لیے کہا جاتا ہے کہ حج قران کرنے والا عمرے کے لیے الگ سفر کرنے کی اذیت سے محفوظ رہتا ہے، اس طرح وہ ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ دونوں ادا کرنے کا فائدہ حاصل کر لیتا ہے۔
چونکہ حضرت عثمان ؓ کا منع کرنا اپنے اجتہاد کی بنا پر تھا، اس لیے حضرت علی ؓ نے اس پر عمل نہیں کیا بلکہ فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان کو کسی کے قول کی بنا پر ترک نہیں کیا جا سکتا۔
(3)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت عثمان ؓ بہت بردبار اور حلیم الطبع تھے۔
یہی وجہ ہے کہ انہوں نے خلیفہ ہونے کے باوجود اس مخالفت پر کسی کو ملامت نہیں کی۔
(4)
سنن نسائی کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے اپنے اس موقف سے رجوع کر لیا تھا۔
(سنن النسائي، مناسك الحج، حدیث: 2724)
لیکن یہ رجوع صریح الفاظ میں نہیں بلکہ اس روایت سے رجوع کا اشارہ ملتا ہے۔
(فتح الباري: 536/3) (5)
اس حدیث سے اتباع سنت کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ صحابہ کرام ؓ رسول اکرم ﷺ کی حدیث کے مقابلے میں کسی صحابی کے اجتہاد کو بھی اہمیت نہیں دیتے تھے۔
جو لوگ صریح حدیث کو اس لیے ترک کر دیتے ہیں کہ ہمارے امام، مفتی یا بزرگ کا فتویٰ اس پر نہیں ہے، ان کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1563