صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ -- کتاب: حج کے مسائل کا بیان
34. بَابُ التَّمَتُّعِ وَالإِقْرَانِ وَالإِفْرَادِ بِالْحَجِّ، وَفَسْخِ الْحَجِّ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ:
باب: حج میں تمتع، قران اور افراد کا بیان اور جس کے ساتھ ہدی نہ ہو، اسے حج فسخ کر کے عمرہ بنا دینے کی اجازت ہے۔
حدیث نمبر: 1564
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" كَانُوا يَرَوْنَ أَنَّ الْعُمْرَةَ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ مِنْ أَفْجَرِ الْفُجُورِ فِي الْأَرْضِ، وَيَجْعَلُونَ الْمُحَرَّمَ صَفَرًا، وَيَقُولُونَ: إِذَا بَرَا الدَّبَرْ وَعَفَا الْأَثَرْ وَانْسَلَخَ صَفَرْ حَلَّتِ الْعُمْرَةُ لِمَنِ اعْتَمَرْ، قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ صَبِيحَةَ رَابِعَةٍ مُهِلِّينَ بِالْحَجِّ فَأَمَرَهُمْ أَنْ يَجْعَلُوهَا عُمْرَةً فَتَعَاظَمَ ذَلِكَ عِنْدَهُمْ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْحِلِّ؟ , قَالَ: حِلٌّ كُلُّهُ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن طاؤس نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ عرب سمجھتے تھے کہ حج کے دنوں میں عمرہ کرنا روئے زمین پر سب سے بڑا گناہ ہے۔ یہ لوگ محرم کو صفر بنا لیتے اور کہتے کہ جب اونٹ کی پیٹھ سستا لے اور اس پر خوب بال اگ جائیں اور صفر کا مہینہ ختم ہو جائے (یعنی حج کے ایام گزر جائیں) تو عمرہ حلال ہوتا ہے۔ پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ چوتھی کی صبح کو حج کا احرام باندھے ہوئے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ اپنے حج کو عمرہ بنا لیں، یہ حکم (عرب کے پرانے رواج کی بنا پر) عام صحابہ پر بڑا بھاری گزرا۔ انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ! عمرہ کر کے ہمارے لیے کیا چیز حلال ہو گئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام چیزیں حلال ہو جائیں گی۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1804  
´حج قران کا بیان۔`
مسلم قری سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کا تلبیہ پکارا اور آپ کے صحابہ کرام نے حج کا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1804]
1804. اردو حاشیہ: حج قران کے لیے تلبیہ میں یہ جائز ہے کہ کسی وقت «لبیک بحجة» ‏‏‏‏ کہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1804   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1564  
1564. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: لوگ سمجھتے تھے کہ حج کے زمانے میں عمرہ کرنا اس زمین پر بدترین گناہ ہے۔ اور وہ (اپنی طرف سے) ماہ محرم کو صفر بنا لیتے اور کہتے کہ جب اونٹ کی پیٹھ کازخم اچھاہوکر اس کا نشان مٹ جائے اورصفر گزر جائے تو اس وقت عمرہ حلال ہے اس شخص کے لیے جو عمرہ کرنا چاہے۔ جب رسول اللہ ﷺ آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین چار ذوالحجہ کی صبح کو حج کا احرام باندھے ہوئے مکہ پہنچے تو آپ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حکم دیا کہ وہ اس حرام کو ختم کرکے اس کے بجائے عمرے کا احرام باندھ لیں۔ یہ بات ان پر بہت گراں گزری اور کہنے لگے: اللہ کے رسول ﷺ!عمرہ کرکے ہمارے لیے کیا چیز حلال ہوگی؟آپ نے فرمایا: سب چیزیں حلال ہوں گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1564]
حدیث حاشیہ:
ہر آدمی کے دل میں قدیمی رسم ورواج کا بڑا اثر رہتا ہے۔
جاہلیت کے زمانہ سے ان کا یہ اعتقاد چلا آتا تھا کہ حج کے دنوں میں عمرہ کرنا بڑا گناہ ہے، اسی وجہ سے آپ کا یہ حکم ان پر گراں گزرا۔
ایمان افروز تقریر! حدیث ہذا کے ذیل حضرت مولانا وحید الزمان صاحب مرحوم نے ایک ایمان افروز تقریر حوالہ قرطاس فرمائی ہے جو اہل بصیرت کے مطالعہ کے قابل ہے۔
صحابہ کرام نے کہا یا رسول اللہ أي الحل قال حل کله یعنی یا رسول اللہ! عمرہ کرکے ہم کو کیا چیز حلال ہوگی۔
آپ نے فرمایا سب چیزیں یعنی جتنی چیزیں احرام میں منع تھیں وہ سب درست ہوجائیں گی۔
انہوں نے یہ خیال کیا کہ شاید عورتوں سے جماع درست نہ ہو۔
جیسے رمی اور حلق اور قربانی کے بعد سب چیزیں درست ہوجاتی ہیں لیکن جماع درست نہیں ہوتا جب تک طواف الزیارۃ نہ کرے تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ نہیں عورتیں بھی درست ہوجائیں گی۔
دوسری روایت میں ہے کہ بعضے صحابہ کو اس میں تامل ہوا اور ان میں سے بعضوں نے یہ بھی کہا کہ کیا ہم حج کو اس حال میں جائیں کہ ہمارے ذکر سے منی ٹپک رہی ہو۔
آنحضرت ﷺ کو ان کا یہ حال دیکھ کر سخت ملال ہوا کہ میں حکم دیتا ہوں اور یہ اس کی تعمیل میں تامل کرتے ہیں اور چہ میگوئیاں نکالتے ہیں۔
لیکن جو صحابہ قوی الایمان تھے انہوں نے فوراً آنحضرت ﷺ کے ارشاد پر عمل کیا اور عمرہ کرکے احرام کھول ڈالا۔
پیغمبر ﷺ جو کچھ حکم دیں وہیں اللہ کا حکم ہے اور یہ ساری محنت اور مشقت اٹھانے سے غرض کیا ہے۔
اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی۔
عمرہ کرکے احرام کھول ڈالنا تو کیا چیز ہے۔
آپ جو بھی حکم فرمائیں اس کی تعمیل ہمارے لیے عین سعادت ہے۔
جو حکم آپ دیں اسی میں اللہ کی مرضی ہے گو سارا زمانہ اس کے خلاف بکتا رہے۔
ان کا قول اور خیال ان کو مبارک رہے۔
ہم کو مرتے ہی اپنے پیغمبر ﷺ کے ساتھ رہنا ہے۔
اگر بالفرض دوسرے مجتہد یا امام یا پیرومرشد درویش قطب پیغمبر ؑ کی پیروی کرنے میں ہم سے خفا ہوجائیں تو ہم کو ان کی خفگی کی ذرا بھی پرواہ نہیں ہے۔
ہم کو قیامت میں ہمارے پیغمبر کا سایہ عاطفت بس کرتا ہے۔
سارے ولی اور درویش اور غوث اور قطب اور مجتہد اور امام اس بارگاہ کے ایک ادنیٰ کفش بردار ہیں۔
کفش برداروں کو راضی رکھیں یا اپنے سردار کو اللهم صل علی محمد وعلی آل محمد وعلی أصحابه وارزقنا شفاعته یوم القیامة واحشرنا في زمرة أتباعه وثبتنا علی متابعته والعمل بسنته امین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1564   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1564  
1564. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: لوگ سمجھتے تھے کہ حج کے زمانے میں عمرہ کرنا اس زمین پر بدترین گناہ ہے۔ اور وہ (اپنی طرف سے) ماہ محرم کو صفر بنا لیتے اور کہتے کہ جب اونٹ کی پیٹھ کازخم اچھاہوکر اس کا نشان مٹ جائے اورصفر گزر جائے تو اس وقت عمرہ حلال ہے اس شخص کے لیے جو عمرہ کرنا چاہے۔ جب رسول اللہ ﷺ آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین چار ذوالحجہ کی صبح کو حج کا احرام باندھے ہوئے مکہ پہنچے تو آپ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حکم دیا کہ وہ اس حرام کو ختم کرکے اس کے بجائے عمرے کا احرام باندھ لیں۔ یہ بات ان پر بہت گراں گزری اور کہنے لگے: اللہ کے رسول ﷺ!عمرہ کرکے ہمارے لیے کیا چیز حلال ہوگی؟آپ نے فرمایا: سب چیزیں حلال ہوں گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1564]
حدیث حاشیہ:
(1)
دورِ جاہلیت میں جنگل کا قانون رائج تھا۔
ہر طرف تحکم اور سینہ زوری تھی۔
اپنی مرضی کو قانون کا درجہ دے لیتے تھے۔
ان کالے قوانین میں ایک قانون یہ تھا کہ وہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کو بدترین گناہ خیال کرتے تھے، پھر اپنی مرضی سے مہینوں کو آگے پیچھے بھی کرتے، مثلا:
محرم کو صفر قرار دے کر اس میں لوٹ مار کا بازار گرم کرتے۔
حضرت ابن عباس ؓ نے دور جاہلیت کی اندھیر نگری کو آغاز حدیث میں بیان کیا ہے۔
وہ کہتے تھے کہ حج کے بعد عمرہ کرنے کے لیے اتنا وقفہ ہونا چاہیے کہ حج پر کٹے ہوئے اونٹوں کے زخم درست ہو جائیں اور زخموں كے نشانات مٹ کر ان پر اون وغیرہ آ جائے اور صفر کا مہینہ گزر جائے۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کو اسی عقیدے کی تردید کے لیے ماہ ذوالحجہ میں عمرہ کرایا تھا، چنانچہ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں:
اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کو ماہ ذوالحجہ میں عمرہ کرنے کا حکم اس لیے دیا تھا کہ قریش اور ان کے مسلک پر چلنے والوں کے اس عقیدے کی تردید ہو کہ اس مہینے میں عمرہ کرنا گناہ ہے۔
(صحیح ابن حبان: 31/7) (2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ ؓ نے صحابہ کرام ؓ کو حج کا احرام عمرے میں تبدیل کرنے کا حکم دیا۔
اس سے مقصود بھی دور جاہلیت میں رائج اعتقاد فاسد کی تردید تھا۔
چونکہ حج میں دو قسم کی حلت تھی:
ایک حلت صغریٰ کہ دسویں تاریخ کو رمی کرنے کے بعد آدمی محدود پیمانے پر احرام کی پابندیوں سے آزاد ہو جاتا تھا، یعنی بیوی سے جماع کے علاوہ ہر قسم کی پابندی سے آزاد ہو جاتا، دوسری حلت کبریٰ، طواف افاضہ کرنے کے بعد حاصل ہوتی کہ اس میں بیوی سے جماع بھی کیا جا سکتا تھا۔
جب رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام کو حج کا احرام ختم کر کے عمرے کا احرام باندھنے کے متعلق حکم دیا تو انہوں نے سوال کیا کہ عمرے سے فراغت کے بعد کس قسم کی حلت سے واسطہ پڑے گا؟ آپ نے وضاحت فرمائی کہ فراغت کے بعد تمہارے لیے ہر چیز حلال ہو گئی حتی کہ تم اپنی بیویوں سے جماع بھی کر سکو گے۔
چونکہ صحابہ کرام ؓ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے سے مانوس نہ تھے، اس لیے انہیں وقتی طور پر یہ بات بہت گراں محسوس ہوئی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1564