صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ -- کتاب: حج کے مسائل کا بیان
34. بَابُ التَّمَتُّعِ وَالإِقْرَانِ وَالإِفْرَادِ بِالْحَجِّ، وَفَسْخِ الْحَجِّ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ:
باب: حج میں تمتع، قران اور افراد کا بیان اور جس کے ساتھ ہدی نہ ہو، اسے حج فسخ کر کے عمرہ بنا دینے کی اجازت ہے۔
حدیث نمبر: 1567
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنَا أَبُو جَمْرَةَ نَصْرُ بْنُ عِمْرَانَ الضُّبَعِيُّ، قَالَ:" تَمَتَّعْتُ، فَنَهَانِي نَاسٌ، فَسَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَأَمَرَنِي، فَرَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ كَأَنَّ رَجُلًا يَقُولُ لِي: حَجٌّ مَبْرُورٌ وَعُمْرَةٌ مُتَقَبَّلَةٌ، فَأَخْبَرْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: سُنَّةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي: أَقِمْ عِنْدِي، فَأَجْعَلَ لَكَ سَهْمًا مِنْ مَالِي، قَالَ شُعْبَةُ: فَقُلْتُ: لِمَ، فَقَالَ: لِلرُّؤْيَا الَّتِي رَأَيْتُ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوجمرہ نصر بن عمران ضبعی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے حج اور عمرہ کا ایک ساتھ احرام باندھا تو کچھ لوگوں نے مجھے منع کیا۔ اس لیے میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کے متعلق دریافت کیا۔ آپ نے تمتع کرنے کے لیے کہا۔ پھر میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ مجھ سے کہہ رہا ہے حج بھی مبرور ہوا اور عمرہ بھی قبول ہوا میں نے یہ خواب ابن عباس رضی اللہ عنہما کو سنایا، تو آپ نے فرمایا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ میرے یہاں قیام کر، میں اپنے پاس سے تمہارے لیے کچھ مقرر کر کے دیا کروں گا۔ شعبہ نے بیان کیا کہ میں نے (ابوجمرہ سے) پوچھا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ کیوں کیا تھا؟ (یعنی مال کس بات پر دینے کے لیے کہا) انہوں نے بیان کیا کہ اسی خواب کی وجہ سے جو میں نے دیکھا تھا۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 932  
´حج سے متعلق ایک اور باب۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمرہ حج میں قیامت تک کے لیے داخل ہو چکا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 932]
اردو حاشہ:
1؎:
مگر حرمت والے مہینوں کا حج کے لیے احرام باندھنے سے کوئی تعلق نہیں ہے،
امام رحمہ اللہ نے ان کا ذکر صرف وضاحت کے لیے کیا ہے تاکہ دونوں خلط ملط نہ جائیں۔
نوٹ:
(سند میں یزید بن ابی زیادضعیف ہیں،
لیکن متابعات وشواہد سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 932   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1790  
´حج افراد کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ عمرہ ہے، ہم نے اس سے فائدہ اٹھایا لہٰذا جس کے ساتھ ہدی نہ ہو وہ پوری طرح سے حلال ہو جائے، اور عمرہ حج میں قیامت تک کے لیے داخل ہو گیا ہے۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ (مرفوع حدیث) منکر ہے، یہ ابن عباس کا قول ہے نہ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1790]
1790. اردو حاشیہ:
➊ امام ابن القیم فرماتے ہیں: امام ابو داؤد کا مذکورہ بالا حدیث کو منکر کہنا صحیح نہیں۔کیونکہ یہ مسئلہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ یہ جرح در اصل اگلی حدیث (1791پر ہے۔ (عون المعبود)
➋ چونکہ قبل از اسلام لوگ ایام حج میں عمرہ کرنا کبیرہ گناہ سمجھتے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی ممانعت کرتے ہوئے شریعت اسلام کی بات تاکید کے ساتھ نافذ فرمائی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1790   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1567  
1567. حضرت ابو جمرہ نصر بن عمران ضبعی سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے حج تمتع کا احرام باندھا تو لوگوں نے مجھے منع کیا۔ میں نے اس کے متعلق حضرت ابن عباس ؓ سے دریافت کیا تو انھوں نے مجھے تمتع ہی کا حکم دیا۔ اسکے بعد میں نے خواب میں دیکھا گویا ایک آدمی مجھے کہہ رہا ہے کہ تمہارا حج مبرور اور عمرہ مقبول ہے۔ میں نے اس خواب کا تذکرہ حضرت ابن عباس ؓ سے کیا تو انھوں نےفرمایا کہ یہ تو ابو القاسم ﷺ کی سنت ہے، نیز مجھ سے فرمایا کہ تم میرے پاس رہو میں اپنے مال میں سے تمہارے لیے کچھ حصہ مقرر کردوں گا۔ راوی حدیث شعبہ نے کہا: میں نے ابو جمرہ سے کہا کہ حضرت ابن عباس ؓ نے ایسا کیوں فرمایا؟ انھوں نے کہا: اس خواب کی وجہ سے جو میں نے دیکھاتھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1567]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابن عباس ؓ کو ابو جمرہ کا یہ خواب بہت بھلا معلوم ہوا کیونکہ انہوں نے جو فتویٰ دیا تھا اس کی صحت اس سے نکلی۔
خواب کوئی شرعی حجت نہیں ہے۔
مگر نیک لوگوں کے خواب جب شرعی امور کی تائید میں ہوں تو ان کے صحیح ہونے کا ظن غالب ہوتا ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ نے حج تمتع کو رسول اللہ ﷺ کی سنت بتلایا اور سنت کے موافق جو کوئی کام کرے وہ ضرور اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہوگا۔
سنت کے موافق تھوڑی سی عبادت بھی خلاف سنت بڑی عبادت سے زیادہ ثواب رکھتی ہے۔
علمائے دین سے منقول ہے کہ ادنیٰ سنت کی پیروی جیسے فجر کی سنتوں کے بعد لیٹ جانا درجہ میں بڑے ثواب کی چیز ہے۔
یہ ساری نعمت آنحضرت ﷺ کی کفش برداری کی وجہ سے ملتی ہے۔
پروردگار کو کسی کی عبادت کی حاجت نہیں۔
اس کو یہی پسند ہے کہ اس کے حبیب ﷺ کی چال ڈھال اختیار کی جائے۔
حافظ ؒ فرماتے ہیں:
وَيُؤْخَذُ مِنْهُ إِكْرَامُ مَنْ أَخْبَرَ الْمَرْءَ بِمَا يَسُرُّهُ وَفَرَحُ الْعَالِمِ بِمُوَافَقَتِهِ الْحَقَّ وَالِاسْتِئْنَاسُ بِالرُّؤْيَا لِمُوَافَقَةِ الدَّلِيلِ الشَّرْعِيِّ وَعَرْضُ الرُّؤْيَا عَلَى الْعَالِمِ وَالتَّكْبِيرُ عِنْدَ الْمُسِرَّةِ وَالْعَمَلُ بِالْأَدِلَّةِ الظَّاهِرَةِ وَالتَّنْبِيهُ عَلَى اخْتِلَافِ أَهْلِ الْعِلْمِ لِيُعْمَلَ بِالرَّاجِحِ مِنْهُ الْمُوَافِقِ لِلدَّلِيلِ۔
(فتح)
یعنی اس سے یہ نکلا کہ اگر کوئی بھائی کسی کے پاس کوئی خوش کرنے والی خبر لائے تو وہ اس کا اکرام کرے اور یہ بھی کہ کسی عالم کی کوئی بات حق کے موافق پڑ جائے تو وہ خوشی کا اظہار کرسکتا ہے اور یہ بھی کہ دلیل شرعی کے موافق کوئی خواب نظر آجائے تو اس سے دلی مسرت حاصل کرنا جائز ہے اور یہ بھی کہ خواب کسی عالم کے سامنے پیش کرنا چاہیے اور یہ بھی کہ خوشی کے وقت نعرہ تکبیر بلند کرناد رست ہے اور یہ بھی کہ ظاہر دلائل پر عمل کرنا جائز ہے اور یہ بھی کہ اختلاف کے وقت اہل علم کو تنبیہ کی جاسکتی ہے کہ وہ اس پر عمل کریں جو دلیل سے راجح ثابت ہو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1567   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1567  
1567. حضرت ابو جمرہ نصر بن عمران ضبعی سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے حج تمتع کا احرام باندھا تو لوگوں نے مجھے منع کیا۔ میں نے اس کے متعلق حضرت ابن عباس ؓ سے دریافت کیا تو انھوں نے مجھے تمتع ہی کا حکم دیا۔ اسکے بعد میں نے خواب میں دیکھا گویا ایک آدمی مجھے کہہ رہا ہے کہ تمہارا حج مبرور اور عمرہ مقبول ہے۔ میں نے اس خواب کا تذکرہ حضرت ابن عباس ؓ سے کیا تو انھوں نےفرمایا کہ یہ تو ابو القاسم ﷺ کی سنت ہے، نیز مجھ سے فرمایا کہ تم میرے پاس رہو میں اپنے مال میں سے تمہارے لیے کچھ حصہ مقرر کردوں گا۔ راوی حدیث شعبہ نے کہا: میں نے ابو جمرہ سے کہا کہ حضرت ابن عباس ؓ نے ایسا کیوں فرمایا؟ انھوں نے کہا: اس خواب کی وجہ سے جو میں نے دیکھاتھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1567]
حدیث حاشیہ:
(1)
حدیث میں مذکور واقعہ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے دور حکومت میں پیش آیا۔
(2)
حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ حج تمتع سے لوگوں کو منع کرتے تھے۔
ان کا موقف تھا کہ حج تمتع کسی مجبوری کے پیش نظر کیا جا سکتا ہے، عام حالات میں کرنا صحیح نہیں، لیکن ان کا یہ موقف جمہور اہل علم کے خلاف ہے۔
جب ابو جمرہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے اللہ أکبر کہا اور فرمایا:
ایسا کرنا تو رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے۔
پھر ابو جمرہ بیت اللہ گئے اور طواف کیا، انہیں وہیں نیند آ گئی تو خواب میں حج تمتع کے قبول ہونے کی بشارت دی گئی۔
ایک روایت میں ہے کہ خواب میں آنے والے نے کہا:
آپ کا حج تمتع قبول ہوا۔
(فتح الباري: 542/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1567