صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ -- کتاب: حج کے مسائل کا بیان
34. بَابُ التَّمَتُّعِ وَالإِقْرَانِ وَالإِفْرَادِ بِالْحَجِّ، وَفَسْخِ الْحَجِّ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ:
باب: حج میں تمتع، قران اور افراد کا بیان اور جس کے ساتھ ہدی نہ ہو، اسے حج فسخ کر کے عمرہ بنا دینے کی اجازت ہے۔
حدیث نمبر: 1568
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا أَبُو شِهَابٍ، قَالَ:" قَدِمْتُ مُتَمَتِّعًا مَكَّةَ بِعُمْرَةٍ فَدَخَلْنَا قَبْلَ التَّرْوِيَةِ بِثَلَاثَةِ أَيَّامٍ، فَقَالَ لِي أُنَاسٌ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ: تَصِيرُ الْآنَ حَجَّتُكَ مَكِّيَّةً، فَدَخَلْتُ عَلَى عَطَاءٍ أَسْتَفْتِيهِ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ حَجَّ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ سَاقَ الْبُدْنَ مَعَهُ، وَقَدْ أَهَلُّوا بِالْحَجِّ مُفْرَدًا، فَقَالَ لَهُمْ: أَحِلُّوا مِنْ إِحْرَامِكُمْ بِطَوَافِ الْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا والمروة وَقَصِّرُوا، ثُمَّ أَقِيمُوا حَلَالًا حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ فَأَهِلُّوا بِالْحَجِّ، وَاجْعَلُوا الَّتِي قَدِمْتُمْ بِهَا مُتْعَةً، فَقَالُوا: كَيْفَ نَجْعَلُهَا مُتْعَةً وَقَدْ سَمَّيْنَا الْحَجَّ؟، فَقَالَ: افْعَلُوا مَا أَمَرْتُكُمْ، فَلَوْلَا أَنِّي سُقْتُ الْهَدْيَ لَفَعَلْتُ مِثْلَ الَّذِي أَمَرْتُكُمْ، وَلَكِنْ لَا يَحِلُّ مِنِّي حَرَامٌ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ، فَفَعَلُوا"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ أَبُو شِهَابٍ: لَيْسَ لَهُ مُسْنَدٌ إِلَّا هَذَا.
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، ان سے ابوشہاب نے کہا کہ میں تمتع کی نیت سے عمرہ کا احرام باندھ کے یوم ترویہ سے تین دن پہلے مکہ پہنچا۔ اس پر مکہ کے کچھ لوگوں نے کہا اب تمہارا حج مکی ہو گا۔ میں عطاء بن ابی رباح کی خدمت میں حاضر ہوا۔ یہی پوچھنے کے لیے۔ انہوں نے فرمایا کہ مجھ سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ حج کیا تھا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ قربانی کے اونٹ لائے تھے (یعنی حجتہ الوداع) صحابہ نے صرف مفرد حج کا احرام باندھا تھا۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ (عمرہ کا احرام باندھ لو اور) بیت اللہ کے طواف اور صفا مروہ کی سعی کے بعد اپنے احرام کھول ڈالو اور بال ترشوا لو۔ یوم ترویہ تک برابر اسی طرح حلال رہو، پھر یوم ترویہ میں مکہ ہی سے حج کا احرام باندھو اور اس طرح اپنے حج مفرد کو جس کی تم نے پہلے نیت کی تھی، اب اسے تمتع بنا لو۔ صحابہ نے عرض کی کہ ہم اسے تمتع کیسے بنا سکتے ہیں؟ ہم تو حج کا احرام باندھ چکے ہیں۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس طرح میں کہہ رہا ہوں ویسے ہی کرو۔ اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتی تو خود میں بھی اسی طرح کرتا جس طرح تم سے کہہ رہا ہوں۔ لیکن میں کیا کروں اب میرے لیے کوئی چیز اس وقت تک حلال نہیں ہو سکتی جب تک میرے قربانی کے جانوروں کی قربانی نہ ہو جائے۔ چنانچہ صحابہ نے آپ کے حکم کی تعمیل کی۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ ابوشہاب کی اس حدیث کے سوا اور کوئی مرفوع حدیث مروی نہیں ہے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1074  
´جب مسافر کسی مقام پر ٹھہرے تو کتنے دنوں تک قصر کر سکتا ہے؟`
عطاء کہتے ہیں کہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے مجھ سے میرے ساتھ کئی لوگوں کی موجودگی میں حدیث بیان کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ چار ذی الحجہ کی صبح تشریف لائے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1074]
اردو حاشہ:
فائدہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحجہ کو صبح کے وقت مکہ مکرمہ تشریف فرما ہوئے۔
اور یہاں سے یوم الترویہ (8 ذوالحجہ)
کو منیٰ کی طرف روانہ ہوئے۔
اس میں یہ ارشاد ہے کہ چاردن ٹھرنے کی صورت میں بھی دوگانہ ادا کیاجا سکتا ہے۔
الغرض قصر نماز کےلئے دنوں کے تعین میں یہ روایت پہلی روایت سے زیادہ واضح اور فیصلہ کن ہے۔
واللہ أعلم تاہم دونوں ہی موقف صحیح ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1074   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1789  
´حج افراد کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام نے حج کا احرام باندھا ان میں سے اس دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور طلحہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی کے پاس ہدی کے جانور نہیں تھے اور علی رضی اللہ عنہ یمن سے ساتھ ہدی لے کر آئے تھے تو انہوں نے کہا: میں نے اسی کا احرام باندھا ہے جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھا ہے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ حج کو عمرہ میں بدل لیں یعنی وہ طواف کر لیں پھر بال کتروا لیں اور پھر احرام کھول دیں سوائے ان لوگوں کے جن کے ساتھ ہدی ہو، تو لوگوں نے عرض کیا: کیا ہم منیٰ کو اس حال میں جائیں کہ ہمارے ذکر منی ٹپکا رہے ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا: اگر مجھے پہلے سے یہ معلوم ہوتا جو اب معلوم ہوا ہے تو میں ہدی نہ لاتا، اور اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتا تو میں بھی احرام کھول دیتا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1789]
1789. اردو حاشیہ:
➊ صحابہ کرام خوب سمجھتے تھے کہ دین و شریعت رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ا ور پیروی کانام ہے۔ اسی لیے حضرت علی نے احرام کی نیت میں یہ کہا کہ میرا احرام اور میری نیت وہی ہے جو رسول اللہ ﷺ کی ہے۔
➋ اور دوسری بات (کہ ہم منی کو اس حالت میں جائیں ......)کہنے کی وجہ یہ تھی کہ عبادت چونکہ انسان سے زہد و رغبت الی اللہ کا تقاضا کرتی ہے اور اعمال حج شروع ہونےمیں دو دن باقی تھے تو انہیں کامل حلت کچھ عجیب سی لگی۔ نیز رسول اللہ ﷺ خود بھی تو حلال نہیں ہوئے تھے۔ او روہ رسول اللہ ﷺ کی پیروی کے شائق تھے۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے اپنی مجبوری کی وضاحت کرکے صحابہ کرام کا اشکال دور فرما دیا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1789   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1568  
1568. حضرت ابوشہاب سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں مکہ مکرمہ میں عمرے کا احرام باندھے ہوئے آیا۔ میری نیت حج تمتع کرنے کی تھی۔ چنانچہ ہم آٹھ ذوالحجہ سے تین دن پہلے مکہ پہنچے تو مجھے اہل مکہ میں سے چند لوگوں نے کہا کہ تیرا حج تو مکی ہوگا۔ میں حضرت عطاء بن ابی رباح کے پاس آیا تاکہ ان سے مسئلہ دریافت کروں۔ انھوں نے کہا: مجھے جابر بن عبداللہ ؓ نے خبر دی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ حج کیا۔ رسول اللہ ﷺ اس وقت قربانی کے جانور ساتھ لائے تھے۔ دیگر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے حج مفرد کا احرام باندھا تھا۔ آپ نے ان سے فرمایا: تم لوگ کعبہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کرکے احرام کھول دو اور بال کٹوا دو پھر اسی طرح احرام کے بغیر ٹھہرے رہو۔ جب آٹھویں تاریخ ہوتو مکہ ہی سے حج کا احرام باندھ لو اور جس احرام میں تم آئے تھے اسے تمتع بنالو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کیا: ہم اسے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1568]
حدیث حاشیہ:
مکی حج سے یہ مراد ہے کہ مکہ والے جو مکہ ہی سے حج کرتے ہیں ان کو چونکہ تکلیف اور محنت کم ہوتی ہے لہٰذا ثواب بھی زیادہ نہیں ملتا۔
ان لوگوں کی غرض یہ تھی کہ جب تمتع کیا اور حج کا احرام مکہ سے باندھا، تو اب حج کا ثواب اتنا نہ ملے گا جتنا حج مفرد میں ملتا جس کا احرام باہر سے باندھا ہوتا۔
جابر ؓ نے یہ حدیث بیان کرکے مکہ والوں کا رد کیا اور ابو شہاب کا شبہ دور کردیا کہ تمتع میں ثواب کم ملے گا۔
تمتع تو سب قسموں میں افضل ہے اور اس میں افراد اور قران دونوں سے زیادہ ثواب ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1568   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1568  
1568. حضرت ابوشہاب سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں مکہ مکرمہ میں عمرے کا احرام باندھے ہوئے آیا۔ میری نیت حج تمتع کرنے کی تھی۔ چنانچہ ہم آٹھ ذوالحجہ سے تین دن پہلے مکہ پہنچے تو مجھے اہل مکہ میں سے چند لوگوں نے کہا کہ تیرا حج تو مکی ہوگا۔ میں حضرت عطاء بن ابی رباح کے پاس آیا تاکہ ان سے مسئلہ دریافت کروں۔ انھوں نے کہا: مجھے جابر بن عبداللہ ؓ نے خبر دی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ حج کیا۔ رسول اللہ ﷺ اس وقت قربانی کے جانور ساتھ لائے تھے۔ دیگر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے حج مفرد کا احرام باندھا تھا۔ آپ نے ان سے فرمایا: تم لوگ کعبہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کرکے احرام کھول دو اور بال کٹوا دو پھر اسی طرح احرام کے بغیر ٹھہرے رہو۔ جب آٹھویں تاریخ ہوتو مکہ ہی سے حج کا احرام باندھ لو اور جس احرام میں تم آئے تھے اسے تمتع بنالو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کیا: ہم اسے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1568]
حدیث حاشیہ:
(1)
مکی حج کا مطلب یہ ہے کہ اہل مکہ جو مکہ ہی سے حج کا احرام باندھتے ہیں اس میں تکلیف اور محنت کم ہوتی ہے، لہذا ثواب بھی زیادہ نہیں ملے گا کیونکہ حج کا ثواب تو بقدر مشقت ہوتا ہے۔
ان لوگوں کا مطلب یہ تھا کہ جب حج تمتع کیا اور عمرہ کر کے احرام کھول دیا تو حج کا احرام مکہ سے باندھنا ہو گا، اس طرح حج کا ثواب اتنا نہیں ملے گا جتنا حج مفرد میں ملتا ہے جس کا احرام باہر سے باندھا جاتا ہے۔
عطاء ؒ نے حضرت جابر ؓ کی حدیث بیان کر کے اہل مکہ کا رد کیا جو ابو شہاب کو بلا فیس مشورے دے رہے تھے۔
اس طرح ابو شہاب کا شبہ دور ہو گیا کہ حج تمتع کرنے سے ثواب کم ملتا ہے۔
تمتع تو تمام اقسام حج سے افضل ہے اور اس میں افراد اور قران دونوں سے زیادہ ثواب ملتا ہے، نیز جو شخص حج سے چند دن پہلے عمرہ کرے اسے قصر کرنا (بال کٹوانا)
چاہیے تاکہ دسویں تاریخ تک بال حلق (مونڈنے)
کے قابل ہو جائیں۔
(2)
امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں وضاحت کی ہے کہ حضرت عطاء بن ابی رباح کے واسطے سے ابو شہاب کی صرف یہی ایک روایت متصل سند سے مروی ہے، تاہم دوسرے طرق سے اس کی متعدد روایات کتب حدیث میں مروی ہیں۔
(فتح الباري: 544/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1568