سنن ابي داود
كتاب تفريع أبواب الطلاق -- کتاب: طلاق کے فروعی احکام و مسائل
35. باب مَنْ أَحَقُّ بِالْوَلَدِ
باب: بچے کی پرورش کا زیادہ حقدار کون ہے؟
حدیث نمبر: 2277
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، وَأَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي زِيَادٌ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أُسَامَةَ، أَنَّ أَبَا مَيْمُونَةَ سَلْمَى مَوْلًى مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ رَجُلَ صِدْقٍ، قَالَ: بَيْنَمَا أَنَا جَالِسٌ مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ جَاءَتْهُ امْرَأَةٌ فَارِسِيَّةٌ مَعَهَا ابْنٌ لَهَا فَادَّعَيَاهُ وَقَدْ طَلَّقَهَا زَوْجُهَا، فَقَالَتْ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، وَرَطَنَتْ لَهُ بِالْفَارِسِيَّةِ، زَوْجِي يُرِيدُ أَنْ يَذْهَبَ بِابْنِي، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: اسْتَهِمَا عَلَيْهِ، وَرَطَنَ لَهَا بِذَلِكَ، فَجَاءَ زَوْجُهَا، فَقَالَ: مَنْ يُحَاقُّنِي فِي وَلَدِي؟ فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: اللَّهُمَّ إِنِّي لَا أَقُولُ هَذَا إِلَّا أَنِّي سَمِعْتُ امْرَأَةً جَاءَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا قَاعِدٌ عِنْدَهُ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ زَوْجِي يُرِيدُ أَنْ يَذْهَبَ بِابْنِي وَقَدْ سَقَانِي مِنْ بِئْرِ أَبِي عِنَبَةَ وَقَدْ نَفَعَنِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اسْتَهِمَا عَلَيْهِ"، فَقَالَ زَوْجُهَا: مَنْ يُحَاقُّنِي فِي وَلَدِي؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَذَا أَبُوكَ وَهَذِهِ أُمُّكَ، فَخُذْ بِيَدِ أَيِّهِمَا شِئْتَ"، فَأَخَذَ بِيَدِ أُمِّهِ فَانْطَلَقَتْ بِهِ.
ہلال بن اسامہ سے روایت ہے کہ ابومیمونہ سلمی جو اہل مدینہ کے مولی اور ایک سچے آدمی ہیں کا بیان ہے کہ میں ایک بار ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا تھا کہ اسی دوران ان کے پاس ایک فارسی عورت آئی جس کے ساتھ اس کا لڑکا بھی تھا، اس کے شوہر نے اسے طلاق دے دی تھی اور وہ دونوں ہی اس کے دعویدار تھے، عورت کہنے لگی: ابوہریرہ! (پھر اس نے فارسی زبان میں گفتگو کی) میرا شوہر مجھ سے میرے بیٹے کو لے لینا چاہتا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تم دونوں اس کے لیے قرعہ اندازی کرو، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی فارسی زبان ہی میں اس سے گفتگو کی، اتنے میں اس کا شوہر آیا اور کہنے لگا: میرے لڑکے کے بارے میں مجھ سے کون جھگڑا کر سکتا ہے؟ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یا اللہ! میں نے تو یہ فیصلہ صرف اس وجہ سے کیا ہے کہ میں نے ایک عورت کو کہتے سنا تھا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی میں آپ کے پاس بیٹھا تھا، وہ کہنے لگی: اللہ کے رسول! میرا شوہر میرے بیٹے کو مجھ سے لے لینا چاہتا ہے، حالانکہ وہ ابوعنبہ کے کنویں سے مجھے پانی لا کر پلاتا ہے اور وہ مجھے فائدہ پہنچاتا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم دونوں اس کے لیے قرعہ اندازی کرو، اس کا شوہر بولا: میرے لڑکے کے متعلق مجھ سے کون جھگڑا کر سکتا ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تیرا باپ ہے، اور یہ تیری ماں ہے، ان میں سے تو جس کا بھی چاہے ہاتھ تھام لے، چنانچہ اس نے اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ لیا، اور وہ اسے لے کر چلی گئی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الأحکام 21 (1357)، سنن النسائی/الطلاق 52 (3526)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 22 (2351)، (تحفة الأشراف: 15463)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/447)، سنن الدارمی/الطلاق 15 (2339) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: امام شافعی کی یہی دلیل ہے، ان کے نزدیک لڑکے کو اختیار ہو گا کہ وہ جس کو چاہے اختیار کرلے، اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک جب تک کم سن ہے ماں کے ساتھ رہے گا، اور جب خود کھانے، پینے، پہنے اور استنجا کرنے لگے تو باپ کے ساتھ ہو جائے گا، یہ قول زیادہ قوی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 988  
´پرورش و تربیت کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک عورت آئی اور عرض کیا، اے اللہ کے رسول! میرا شوہر مجھ سے میرا بچہ چھیننا چاہتا ہے اور یہ بچہ میرے کام کاج میں مددگار ہے اور میرے لئے ابوعنبہ کے کنوئیں سے پانی لا کر دیتا ہے۔ اسی اثنا میں اس کا شوہر بھی آ گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لڑکے! یہ تیرا باپ ہے اور یہ تیری والدہ ان دونوں میں سے جس کا چاہے ہاتھ پکڑ لے۔ اس بچہ نے ماں کا ہاتھ پکڑ لیا اور وہ اسے لے کر چلتی بنی۔ اسے احمد اور چاروں نے بیان کیا ہے اور ترمذی نے اسے صحیح کہا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 988»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الطلاق، باب من أحق بالولد، حديث:2277، والترمذي، الأحكام، حديث:1357، والنسائي، الطلاق، حديث:3526، وابن ماجه، الأحكام، حديث:2351، وأحمد:2 /246.»
تشریح:
اس حدیث میں بچے کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ جس کے پاس رہنا پسند کرے اس کے پاس رہے اور اس سے پہلی حدیث میں والدہ کو زیادہ حق دیا گیا ہے۔
تو اس کے بارے میں امام ابن قیم رحمہ اللہ کا قول ہے کہ جس امر میں بچے کی مصلحت اور خیر خواہی ہو اسے اختیار کرنا چاہیے۔
اگر ماں‘ باپ کے مقابلے میں زیادہ صحیح تربیت و پرورش اور حفاظت کرنے والی ہو اور نہایت غیرت مند خاتون ہو تو ماں کو باپ پر مقدم کیا جائے گا۔
اس موقع پر قرعہ اندازی یا اختیار میں سے کسی کا لحاظ نہیں کیا جائے گا کیونکہ بچہ تو نادان‘ کم عقل‘ ناعاقبت اندیش ہوتا ہے۔
ماں باپ میں سے جو بچے کا زیادہ خیال رکھنے والا ہو‘ بچہ اس کے سپرد کر دیا جائے گا۔
اگر باپ میں یہ اوصاف ماں کی نسبت زیادہ ہوں تو بچہ باپ کی تحویل میں دے دیا جائے گا۔
وہی اس کی پرورش و تربیت کا ذمہ دار ہوگا۔
امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ لڑکا ہو یا لڑکی دونوں ماں کے پاس رہیں گے۔
اور احناف نے کہا کہ لڑکی ماں کے پاس اور لڑکا باپ کے پاس رہے گا۔
قرین انصاف بات امام ابن قیم رحمہ اللہ کی معلوم ہوتی ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 988   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2277  
´بچے کی پرورش کا زیادہ حقدار کون ہے؟`
ہلال بن اسامہ سے روایت ہے کہ ابومیمونہ سلمی جو اہل مدینہ کے مولی اور ایک سچے آدمی ہیں کا بیان ہے کہ میں ایک بار ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا تھا کہ اسی دوران ان کے پاس ایک فارسی عورت آئی جس کے ساتھ اس کا لڑکا بھی تھا، اس کے شوہر نے اسے طلاق دے دی تھی اور وہ دونوں ہی اس کے دعویدار تھے، عورت کہنے لگی: ابوہریرہ! (پھر اس نے فارسی زبان میں گفتگو کی) میرا شوہر مجھ سے میرے بیٹے کو لے لینا چاہتا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تم دونوں اس کے لیے قرعہ اندازی کرو، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی فارسی زبان ہی میں اس سے گفتگو کی، اتنے میں اس کا شوہر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2277]
فوائد ومسائل:
بچہ بچی جب خوب سمجھدارہوں تو مذکورہ بالا احوال میں انہیں اختیار دیا جا سکتا ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2277