صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ -- کتاب: حج کے مسائل کا بیان
47. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِيَامًا لِلنَّاسِ وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ وَالْهَدْيَ وَالْقَلاَئِدَ ذَلِكَ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الأَرْضِ وَأَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ} :
باب: اللہ تعالیٰ نے سورۃ المائدہ میں فرمایا اللہ نے کعبہ کو عزت والا گھر اور لوگوں کے قیام کی جگہ بنایا ہے اور اس طرح حرمت والے مہینہ کو بنایا۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان «وأن الله بكل شىء عليم‏» تک۔
حدیث نمبر: 1592
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ , عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا. ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، قال: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ هُوَ ابْنُ الْمُبَارَكِ، قال: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حَفْصَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" كَانُوا يَصُومُونَ عَاشُورَاءَ قَبْلَ أَنْ يُفْرَضَ رَمَضَانُ، وَكَانَ يَوْمًا تُسْتَرُ فِيهِ الْكَعْبَةُ، فَلَمَّا فَرَضَ اللَّهُ رَمَضَانَ، قال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ شَاءَ أَنْ يَصُومَهُ فَلْيَصُمْهُ، وَمَنْ شَاءَ أَنْ يَتْرُكَهُ فَلْيَتْرُكْهُ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا (دوسری سند امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا) اور مجھ سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہمیں محمد بن ابی حفصہ نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عروہ نے اور ان سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا کہ رمضان (کے روزے) فرض ہونے سے پہلے مسلمان عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے۔ عاشوراء ہی کے دن (جاہلیت میں) کعبہ پر غلاف چڑھایا جاتا تھا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے رمضان فرض کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا کہ اب جس کا جی چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے چھوڑ دے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 753  
´یوم عاشوراء کا روزہ نہ رکھنے کی رخصت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ عاشوراء ایک ایسا دن تھا کہ جس میں قریش زمانہ جاہلیت میں روزہ رکھتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس دن روزہ رکھتے تھے، جب آپ مدینہ آئے تو اس دن آپ نے روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا، لیکن جب رمضان کے روزے فرض کئے گئے تو صرف رمضان ہی کے روزے فرض رہے اور آپ نے عاشوراء کا روزہ ترک کر دیا، تو جو چاہے اس دن روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 753]
اردو حاشہ: 1 ؎:
مؤلف نے حدیث پر حکم تیسرے فقرے میں لگایا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 753   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1592  
1592. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ لوگ رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے اور اس روز کعبہ شریف کو غلاف پہنایاجاتا تھا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض کردیے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اب جو چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جو نہ چاہے نہ رکھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1592]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے یوں ہے کہ اس میں عاشوراء کے دن کعبہ پر پردہ ڈالنے کا ذکر ہے جس سے کعبہ شریف کی عظمت ثابت ہوئی جو باب کا مقصود ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1592   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1592  
1592. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ لوگ رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے اور اس روز کعبہ شریف کو غلاف پہنایاجاتا تھا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض کردیے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اب جو چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جو نہ چاہے نہ رکھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1592]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں بیت اللہ کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے کہ عاشوراء کے دن اسے غلاف پہنایا جاتا تھا۔
(2)
کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے یمن کے حیری بادشاہ اسعد تبع نے بیت اللہ کو غلاف پہنایا تھا۔
ہر دور میں اس کا خصوصی اہتمام کیا جاتا تھا۔
(3)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دور جاہلیت میں بھی بیت اللہ کی تعظیم کے پیش نظر اسے غلاف پہنایا جاتا تھا، نیز غلاف پہنانے کا اہتمام محرم کی دسویں تاریخ، یعنی عاشوراء کے دن کیا جاتا تھا۔
امام ابو جعفر باقر کے زمانے تک یہ روایت قائم رہی، اس کے بعد ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کو غلاف پہنانے کا آغاز ہوا جو آج تک قائم ہے۔
حکومت سعودیہ نے ایک مستقل محکمہ غلاف کعبہ کے لیے قائم کیا ہے جو سارا سال اس کی تیاری میں لگا رہتا ہے۔
اس پر لاکھوں ریال اخراجات اٹھتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ اس حکومت کو تادیر قائم رکھے تاکہ بیت اللہ کی حرمت و عظمت کو برقرار رکھنے میں ممدومعاون ثابت ہو۔
آمین
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1592