صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ -- کتاب: حج کے مسائل کا بیان
55. بَابُ كَيْفَ كَانَ بَدْءُ الرَّمَلِ:
باب: رمل کی ابتداء کیسے ہوئی؟
حدیث نمبر: 1602
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ هُوَ ابْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قال:" قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ، فَقَالَ الْمُشْرِكُونَ: إِنَّهُ يَقْدَمُ عَلَيْكُمْ وَقَدْ وَهَنَهُمْ حُمَّى يَثْرِبَ، فَأَمَرَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَرْمُلُوا الْأَشْوَاطَ الثَّلَاثَةَ، وَأَنْ يَمْشُوا مَا بَيْنَ الرُّكْنَيْنِ، وَلَمْ يَمْنَعْهُ أَنْ يَأْمُرَهُمْ أَنْ يَرْمُلُوا الْأَشْوَاطَ كُلَّهَا إِلَّا الْإِبْقَاءُ عَلَيْهِمْ".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ (عمرۃ القضاء 7 ھ میں) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مکہ) تشریف لائے تو مشرکوں نے کہا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آئے ہیں، ان کے ساتھ ایسے لوگ آئے ہیں جنہیں یثرب (مدینہ منورہ) کے بخار نے کمزور کر دیا ہے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ طواف کے پہلے تین چکروں میں رمل (تیز چلنا جس سے اظہار قوت ہو) کریں اور دونوں یمانی رکنوں کے درمیان حسب معمول چلیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم نہیں دیا کہ سب پھیروں میں رمل کریں اس لیے کہ ان پر آسانی ہو۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 613  
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ تین چکروں میں تیز قدم چلیں اور دونوں رکنوں کے درمیان چار چکر عام معمول کے مطابق چل کر لگائیں۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 613]
613 لغوی تشریح:
«‏‏‏‏اَمَرهمْ» سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں۔ 7 ہجری میں عمرۃ القضاء کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ حکم فرمایا تھا۔
«ان يرملوا» میم پر ضمہ ہے۔ دوڑتے ہوئے۔
«اشواط» «شوط» کی جمع ہے۔ جس کے معنی ہیں چکر لگانا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 613   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1886  
´طواف میں رمل کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ آئے اور لوگوں کو مدینہ کے بخار نے کمزور کر دیا تھا، تو مشرکین نے کہا: تمہارے پاس وہ لوگ آ رہے ہیں جنہیں بخار نے ضعیف بنا دیا ہے، اور انہیں بڑی تباہی اٹھانی پڑی ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی اس گفتگو سے مطلع کر دیا، تو آپ نے حکم دیا کہ لوگ (طواف کعبہ کے) پہلے تین پھیروں میں رمل کریں اور رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان عام چال چلیں، تو جب مشرکین نے انہیں رمل کرتے دیکھا تو کہنے لگے: یہی وہ لوگ ہیں جن کے متعلق تم لوگوں نے یہ کہا تھا کہ انہیں بخار نے کمزور کر دیا ہے، یہ لوگ تو ہم لوگوں سے زیادہ تندرست ہیں۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تمام پھیروں میں رمل نہ کرنے کا حکم صرف ان پر نرمی اور شفقت کی وجہ سے دیا تھا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1886]
1886. اردو حاشیہ: کفر وکفار کو زیر رکھنے اور ان پرمسلمانوں کارعب اور دبدبہ قائم رکھنے کے لئے مختلف مناسب مواقع پراپنے شباب وقوت کا اظہار ومظاہرہ کرنا شرعا مطلوب ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1886   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1602  
1602. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جب مکہ تشریف لائے تو مشرکین نے یہ کہنا شروع کردیا کہ تمھارے پاس ایک ایسا وفد آیا ہے جسے یثرب (مدینہ) کے بخار نے کمزورکردیا ہے۔ اس پر نبی ﷺ نے اپنے صحابہ کرام ؓ کو حکم دیا کہ طواف کے پہلے تین چکروں میں تیز تیز اور اکڑ کر چلیں اور دونوں رکنوں کے درمیان معمول کی چال چلیں۔ آپ کو یہ حکم دینےمیں کہ وہ سات چکروں میں اکڑ کر چلیں لوگوں پر آسانی کے علاوہ کوئی امر مانع نہ تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1602]
حدیث حاشیہ:
رمل کا سبب حدیث بالا میں خود ذکر ہے۔
مشرکین نے سمجھا تھا کہ مسلمان مدینہ کی مرطوب آب و ہوا سے بالکل کمزور ہو چکے ہیں۔
اس لیے آنحضرت ﷺ نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ طواف کے پہلے تین چکروں میں ذرا اکڑ کر تیز چال چلیں، مونڈھوں کو ہلاتے ہوئے تاکہ کفار مکہ دیکھیں اور اپنے غلط خیال کو واپس لے لیں۔
بعد میں یہ عمل بطور سنت رسول جاری رہا اور اب بھی جاری ہے۔
اب یادگار کے طورپر رمل کرنا چاہیے تاکہ اسلام کے عروج کی تاریخ یاد رہے۔
اس وقت کفار مکہ دونوں شامی رکنوں کی طرف جمع ہوا کرتے تھے، اس لیے اسی حصہ میں رمل سنت قرار پایا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1602   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1602  
1602. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جب مکہ تشریف لائے تو مشرکین نے یہ کہنا شروع کردیا کہ تمھارے پاس ایک ایسا وفد آیا ہے جسے یثرب (مدینہ) کے بخار نے کمزورکردیا ہے۔ اس پر نبی ﷺ نے اپنے صحابہ کرام ؓ کو حکم دیا کہ طواف کے پہلے تین چکروں میں تیز تیز اور اکڑ کر چلیں اور دونوں رکنوں کے درمیان معمول کی چال چلیں۔ آپ کو یہ حکم دینےمیں کہ وہ سات چکروں میں اکڑ کر چلیں لوگوں پر آسانی کے علاوہ کوئی امر مانع نہ تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1602]
حدیث حاشیہ:
(1)
صلح حدیبیہ کے بعد جب عمرہ قضا کے لیے رسول اللہ ﷺ نے مکہ آنے کا پروگرام بنایا تو کفار قریش نے پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ مدینہ منورہ کی آب و ہوا نے انہیں کمزور کر دیا ہے اس بنا پر وہ بہت لاغر ہو چکے ہیں۔
بزعم خود وہ صحابہ کرام ؓ کی لاغری اور دبلا پن دیکھنے کے لیے میزابِ رحمت کے سامنے پہاڑ پر بیٹھ گئے۔
رسول اللہ ﷺ نے دفاعی نقطہ نظر سے اپنے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ احرام باندھ کر پہلوانوں کی طرح کندھے ہلا کر چلو تا کہ قریش پر تمہاری طاقت ظاہر ہو اور انہیں پتہ چل جائے کہ ہم کمزور نہیں ہیں، چنانچہ صحابہ کرام ؓ نے احرام کی چادریں دائیں بغلوں کے نیچے سے نکال کر بائیں کندھوں پر ڈال لیں اور پہلوانوں کی طرح کندھوں کو ہلا ہلا کر بیت اللہ کا طواف کرنے لگے۔
جب رکن یمانی کے پاس آتے تو حجراسود تک آہستہ آہستہ چلتے۔
جب قریش کے سامنے آتے تو تیز تیز چلتے۔
صرف پہلے تین چکروں میں رمل کیا جاتا ہے۔
(2)
عورتوں کو رمل کرنے کی اجازت نہیں۔
(3)
رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کی یہ ادا اللہ کو اس قدر پسند آئی کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ہمیشہ کے لیے سنت قرار دے دیا، حالانکہ اکڑ کر چلنا تکبر کی علامت ہے لیکن اس وقت کافروں پر رعب ڈالنا مقصود تھا۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اب رمل کرنے کا سبب ختم ہو چکا ہے، لہذا اب رمل کرنا مسنون نہیں لیکن ان کا یہ موقف محل نظر ہے۔
بہرحال اب بھی یادگار کے طور پر رمل کرنا چاہیے تاکہ اسلام کے عروج کی تاریخ تازہ رہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1602