سنن ابي داود
كِتَاب الْجِهَادِ -- کتاب: جہاد کے مسائل
131. باب فِي فِدَاءِ الأَسِيرِ بِالْمَالِ
باب: قیدی کو مال لے کر رہا کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2690
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو نُوحٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ فَأَخَذَ يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْفِدَاءَ أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الأَرْضِ إِلَى قَوْلِهِ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ سورة الأنفال آية 67 ـ 68 مِنَ الْفِدَاءِ، ثُمَّ أَحَلَّ لَهُمُ اللَّهُ الْغَنَائِمَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ يُسْأَلُ عَنِ اسْمِ أَبِي نُوحٍ فَقَالَ: إِيشْ تَصْنَعُ بِاسْمِهِ اسْمُهُ اسْمٌ شَنِيعٌ، قَالَ أَبُو دَاوُد: اسْمُ أَبِي نُوحٍ قُرَادٌ، وَالصَّحِيحُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ غَزْوَانَ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھ سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب غزوہ بدر ہوا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں سے فدیہ لیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی: «ما كان لنبي أن يكون له أسرى حتى يثخن في الأرض» سے «مسكم فيما أخذتم» تک نبی کے لیے مناسب نہیں کہ ان کے قیدی باقی اور زندہ رہیں جب تک کہ زمین میں ان (کافروں کا) اچھی طرح خون نہ بہا لیں، تم دنیا کے مال و اسباب چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے، اللہ بڑا غالب اور بڑی حکمت والا ہے، اگر پہلے ہی سے اللہ کی طرف سے بات لکھی ہوئی نہ ہوتی تو جو کچھ تم نے لیا ہے اس کے سبب سے تمہیں بڑی سزا پہنچتی (سورۃ الأنفال: ۶۷-۶۸) پھر اللہ نے ان کے لیے غنائم کو حلال کر دیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الجھاد 18 (1763)، سنن الترمذی/التفسیر 9 (3081)، (تحفة الأشراف: 10496)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/30، 32) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2690  
´قیدی کو مال لے کر رہا کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھ سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب غزوہ بدر ہوا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں سے فدیہ لیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی: «ما كان لنبي أن يكون له أسرى حتى يثخن في الأرض» سے «مسكم فيما أخذتم» تک نبی کے لیے مناسب نہیں کہ ان کے قیدی باقی اور زندہ رہیں جب تک کہ زمین میں ان (کافروں کا) اچھی طرح خون نہ بہا لیں، تم دنیا کے مال و اسباب چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے، اللہ بڑا غالب اور بڑی حکمت والا ہے، اگر پہلے ہی سے اللہ کی طرف سے بات لکھی ہوئی نہ ہوتی تو جو کچھ تم نے لی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2690]
فوائد ومسائل:
آیت قرآنی کا مطلب یہ ہے کہ تم نے کافر قیدیوں کو قتل کرنے کی بجائے۔
جو فدیہ لیا ہے۔
یہ فیصلہ غلط تھا۔
تہمارے لئے بہتر یہ تھا کہ تم ان کو قتل کرتے۔
تاکہ کفار کی قوت کم ہوتی۔
لیکن چونکہ اللہ کی تقدیر میں تہمارے لئے مال غنیمت کا حلال ہونا لکھا ہوا تھا۔
اس لئے اللہ نے تمھیں معاف کر دیا۔
اور اس کے بعد مسلمانوں کے لئے غنیمت کا مال حلال کر دیا گیا۔
جب کہ پہلی امتوں کے لئے مال غنیمت حلال نہیں تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2690