صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ -- کتاب: حج کے مسائل کا بیان
59. بَابُ مَنْ لَمْ يَسْتَلِمْ إِلاَّ الرُّكْنَيْنِ الْيَمَانِيَيْنِ:
باب: اس شخص سے متعلق جس نے صرف دونوں ارکان یمانی کا استلام کیا۔
حدیث نمبر: 1609
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قال:" لَمْ أَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَلِمُ مِنْ البيت، إِلَّا الرُّكْنَيْنِ الْيَمَانِيَيْنِ".
ہم سے ابوالولید طیالسی نے بیان کیا، ان سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سالم بن عبداللہ نے، ان سے ان کے والد عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف دونوں یمانی ارکان کا استلام کرتے دیکھا۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 631  
´سنت سے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی محبت`
«. . . 418- وعن سعيد بن أبى سعيد عن عبيد بن جريج أنه قال لعبد الله بن عمر: يا أبا عبد الرحمن، رأيتك تصنع أربعا لم أر أحدا من أصحابك يصنعها، قال: وما هي يا ابن جريج؟ قال: رأيتك لا تمس من الأركان إلا اليمانيين، ورأيتك تلبس النعال السبتية، ورأيتك تصبغ بالصفرة، ورأيتك إذا كنت بمكة أهل الناس إذا رأوا الهلال ولم تهل أنت حتى كان يوم التروية، قال عبد الله بن عمر: أما الأركان فإني لم أر رسول الله صلى الله عليه وسلم يمس من الأركان إلا اليمانيين، وأما النعال السبتية فإني رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يلبس النعال التى ليس فيها شعر ويتوضأ فيها، فأنا أحب أن ألبسها، وأما الصفرة فإني رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصبغ بها، فأنا أحب أن أصبغ بها، وأما الإهلال فإني لم أر رسول الله صلى الله عليه وسلم يهل حتى تنبعث به راحلته. . . .»
. . . عبید بن جریج رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! میں نے اپ کو چار ایسی چیزیں کرتے ہوئے دیکھا ہے جو کہ آپ کے ساتھیوں میں سے کوئی بھی نہیں کرتا۔ انہوں نے پوچھا: اے ابن جریج! یہ کون سی چیزیں ہیں؟ میں نے کہا: آپ (طواف کے دوران میں) صرف دو یمنی رکنوں (کعبہ کی دو دیواریں جو یمن کی طرف ہیں) کو چھوتے ہیں اور میں نے دیکھا ہے کہ آپ بغیر بالوں والے جوتے پہنتے ہیں اور میں نے دیکھا ہے کہ آپ زرد خضاب لگاتے ہیں اور جب آپ مکہ میں ہوتے ہیں (اور) لوگ (ذوالحجہ کا) چاند دیکھتے ہی لبیک کہنا شروع کرتے ہیں جبکہ آپ ترویہ کے دن (۸ ذولحجہ) سے پہلے لبیک نہیں کہتے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: رہا مسئلہ ارکان کا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو یمنی ارکان چھونے کے علاوہ نہیں دیکھا کہ آپ نے کسی رکن کو چھوا ہو، رہے بغیر بالوں والے جوتے، تو میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بغیر بالوں والے جوتے پہنتے اور ان میں وضو کرتے تھے اور میں پسند کرتا ہوں کہ انہیں پہنوں، رہا زرد خضاب تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خضاب لگاتے ہوئے دیکھا ہے اور میں اس وجہ سے یہ خضاب لگانا پسند کرتا ہوں، رہا لبیک کہنا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (منیٰ کی طرف ۸ ذوالحجہ کو) سواری روانہ کرنے سے پہلے لبیک کہتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 631]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 166، ومسلم 1187، من حديث مالك به، سقط من الأصل واستدركته من رواية يحييٰ بن يحييٰ]

تفقه:
➊ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اتباعِ سنت میں سبقت لے جانے والے تھے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر عمل سے محبت کرتے تھے۔
➋ ہر سوال کا دلیل سے جواب دینا اہل ایمان کا عظیم شعار ہے۔
➌ بعض لوگ اگر کسی مسنون عمل کو ترک کردیں تو یہ اس عمل کے متروک ہونے کی دلیل نہیں ہے۔
➍ جس مسئلے کا علم نہ ہو تو اہلِ علم سے پوچھ لینا چاہئے۔
➎ اہلِ حق میں بعض اجتہادی امور میں اختلاف ہوسکتا ہے اور ایسا اختلاف صحابہ و تابعین کے زمانے میں بھی ہوا ہے۔
➏ جب کسی مسئلے میں اختلاف ہوجائے تو اسے دلیل یعنی قرآن وحدیث اور اجماع سے حل کرنا چاہئے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: «لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَّيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ» تاکہ جو ہلاک ہو تو دلیل دیکھ کر ہلاک ہو اور جو زندہ رہے تو دلیل دیکھ کر زندہ رہے۔ [الانفال: 42] نیز دیکھئے [سورة النحل: 64]
➐ بالوں کو سرخ مہندی لگانا مستحب ہے، واجب نہیں ہے۔ مشہور تابعی ابواسحاق عمرو بن عبداللہ السبیعی رحمہ اللہ نے فرمایا: میں نے علی (رضی اللہ عنہ) کو منبر پر خطبہ دیتے ہوئے دیکھا۔۔۔ آپ کے سر اور داڑھی کے بال سفید تھے۔ الخ [تهذيب الآثار لابن جرير الطبري تحقيق على رضا: 935، وسنده صحيح، مصنف عبدالرزاق 3/189 ح5267، المعجم الكبير للطبراني 1/93 ح155]
◄ عامر الشعبی رحمہ اللہ نے فرمایا: میں نے علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا آپ کے سر اور داڑھی کے بال سفید تھے، آپ کی داڑھی نے کندھوں کے درمیان کو بھرا ہوا تھا۔ الخ [الآحاد والمثاني لابن ابي عاصم 1/137 ح154، وسنده صحيح، رواية يحييٰ القطان عن إسماعيل بن ابي خالد عن عامر الشعبي محمولة على السماع، انظر الجرح والتعديل 2/175، عن ابن المديني رحمه الله بلفظ آخر وسنده صحي،]
◄ عتی بن ضمر رحمہ اللہ نے کہا: میں نے اُبی بن کعب (رضی اللہ عنہ) کو دیکھا، آپ کے سر اور داڑھی کے بال سفید تھے۔ [تهذيب الآثار للطبراني ص499 ح942 وسنده صحيح]
استحباب کے دلائل وہ روایات ہیں جن میں بالوں کو رنگنے اور یہود ونصاریٰ کی مخالفت کا حکم دیا گیا ہے۔ دیکھئے [صحيح بخاري 5899، وصحيح مسلم 2103]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 418   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2946  
´حجر اسود کے استلام (چومنے یا چھونے) کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بجز حجر اسود اور اس کے جو اس سے قریب ہے یعنی رکن یمانی جو بنی جمح کے محلے کی طرف ہے بیت اللہ کے کسی کونے کا استلام نہیں فرماتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2946]
اردو حاشہ:
فوائدومسائل:

(1)
  بیت اللہ کے چار کونے ہیں۔
حجرالاسود والا کو نہ، رکن یمانی، رکن شامی اور رکن عراقی۔
نبی اکرمﷺ کے زمانہ مبارک میں حجر اسود اور رکن یمانی تو اسی مقام پر تھے جہاں ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی تعمیر کرتے وقت بنائے تھے البتہ رکن شامی اور رکن عراقی ابراہیمی تعمیر پر قائم نہیں تھے کیونکہ اہل مکہ نے کعبہ شریف تعمیر کرتے وقت اس کا کچھ حصہ چھوڑدیا تھا۔
یہ چھوڑا ہوا حصہ حطیم یا حجر کہلاتا ہے۔
موجودہ تعمیر بھی اسی انداز سے ہےکہ حطیم کعبہ شریف کی عمارت سے باہر ہے۔

(2)
حجر اسود کا استلام بوسہ دینا یا ہاتھ لگانا یا اشارہ کرنا ہے۔
رکن یمانی کا استلام صرف ہاتھ لگانا ہے۔

(3)
حجر اسود کے سوا کعبہ شریف کے کسی حصے کو چومنا خلاف سنت ہے۔
ملتزم کو بھی بوسہ نہیں دیا جاتا۔
اسی طرح کعبہ شریف کے علاوہ کسی اور عمارت مزار یا یادگار وغیرہ کو بوسہ دینا بھی جائز نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2946   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1772  
´احرام کے وقت کا بیان۔`
عبید بن جریج سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: ابوعبدالرحمٰن! میں نے آپ کو چار کام ایسے کرتے دیکھا ہے جنہیں میں نے آپ کے اصحاب میں سے کسی کو کرتے نہیں دیکھا ہے؟ انہوں نے پوچھا: وہ کیا ہیں ابن جریج؟ وہ بولے: میں نے دیکھا کہ آپ صرف رکن یمانی اور حجر اسود کو چھوتے ہیں، اور دیکھا کہ آپ ایسی جوتیاں پہنتے ہیں جن کے چمڑے میں بال نہیں ہوتے، اور دیکھا آپ زرد خضاب لگاتے ہیں، اور دیکھا کہ جب آپ مکہ میں تھے تو لوگوں نے چاند دیکھتے ہی احرام باندھ لیا لیکن آپ نے یوم الترویہ (آٹھویں ذی الحجہ) کے آنے تک احرام نہیں باندھا، تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رہی رکن یمانی اور حجر اسود کی بات تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف انہیں دو کو چھوتے دیکھا ہے، اور رہی بغیر بال کی جوتیوں کی بات تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی جوتیاں پہنتے دیکھی ہیں جن میں بال نہیں تھے اور آپ ان میں وضو کرتے تھے، لہٰذا میں بھی انہی کو پہننا پسند کرتا ہوں، اور رہی زرد خضاب کی بات تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زرد رنگ کا خضاب لگاتے دیکھا ہے، لہٰذا میں بھی اسی کو پسند کرتا ہوں، اور احرام کے بارے میں یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت تک لبیک پکارتے نہیں دیکھا جب تک کہ آپ کی سواری آپ کو لے کر چلنے کے لیے کھڑی نہ ہو جاتی۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1772]
1772. اردو حاشیہ: حضرت عبد اللہ بن عمر نے اپنے ہر ہر عمل کو سنت رسول ﷺ کے تابع رکھا ہوا تھا۔اور یہی دین و شریعت ہے۔ اور آٹھویں ذوالحجہ کو احرام باندھنے کا عمل اور ان کا جواب اس قیاس واجتہاد پر مبنی ہے کہ نبی ﷺ میقات میں سفر حج شروع کرنے سے پہلے احرام یا تلبیہ پکارے تھے بلکہ بالکل آخری وقت میں کہتے جب اس سے چارہ نہ ہوتا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1772   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1609  
1609. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ کو حجراسود اور رکن یمانی کے علاوہ کسی کا استلام کرتے نہیں دیکھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1609]
حدیث حاشیہ:
کعبہ کے چار کونے ہیں حجر اسود، رکن یمانی، رکن شامی اور رکن عراقی۔
حجر اسود اور رکن یمانی کو رکنین یمانیین اور شامی اور عراقی کو شامیین کہتے ہیں۔
حجر اسود کے علاوہ رکن یمانی کو چھونا یہی رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام کا طریقہ رہا ہے۔
اسی پر عمل درآمد ہے۔
حضرت معاویہ ؓ نے جو کچھ فرمایا ان کی رائے تھی مگر فعل نبوی مقدم ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1609   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1609  
1609. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ کو حجراسود اور رکن یمانی کے علاوہ کسی کا استلام کرتے نہیں دیکھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1609]
حدیث حاشیہ:
(1)
اکثر محدثین کا موقف ہے کہ شامی ارکان کا استلام مسنون نہیں۔
استلام کے معنی ہاتھ سے مس کرنا ہیں۔
اس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ اس کے متعلق جب امیر معاویہ ؓ سے گفتگو کرتے تو درج ذیل آیت پڑھتے:
﴿لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ (الأحزاب21: 33)
تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی میں بہترین نمونہ ہے۔
(2)
واضح رہے کہ شعبہ نے امام مسلم کی روایت میں اس واقعے کو بالکل برعکس بیان کیا ہے، یعنی حضرت ابن عباس ؓ بیت اللہ کے تمام کونوں کا استلام کرتے اور امیر معاویہ ؓ انہیں اس سے روکتے تھے، حالانکہ واقعہ اس کے برعکس ہے جس کی ہم پہلے وضاحت کر آئے ہیں۔
(فتح الباري: 598/3)
مذکورہ روایت میں حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے متعلق بھی بیان ہوا ہے کہ وہ بیت اللہ کے تمام کونوں کا استلام کرتے تھے۔
اس کے متعلق تفصیل بایں طور ہے کہ جب عبداللہ بن زبیر اپنے دور حکومت میں بیت اللہ کی تعمیر سے فارغ ہوئے اور حطیم کو بیت اللہ میں شامل کر دیا، نیز رکن شامی اور عراقی دونوں کو قواعد ابراہیم کے مطابق استوار کیا تو تنعیم گئے، وہاں سے احرام باندھ کر عمرہ کیا اور بیت اللہ کے چاروں کونوں کا استلام کیا، پھر آپ کی شہادت تک لوگ بیت اللہ کے چاروں کونوں کا استلام کرتے تھے۔
اس سے معلوم ہوا کہ عبداللہ بن زبیر ؓ نے ایک معقول وجہ کے پیش نظر طواف کرتے وقت تمام کونوں کا استلام کیا تھا، لیکن حجاج بن یوسف نے جب بیت اللہ کو پہلی بنیادوں پر تعمیر کر دیا تو پھر چاروں کونوں کے استلام کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔
(فتح الباري: 598/3)
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1609