سنن ابي داود
كِتَاب الْجِهَادِ -- کتاب: جہاد کے مسائل
163. باب فِي الإِمَامِ يُسْتَجَنُّ بِهِ فِي الْعُهُودِ
باب: عہد و پیمان میں امام رعایا کے لیے ڈھال ہے اس لیے امام جو عہد کرے اس کی پابندی لوگوں پر ضروری ہے۔
حدیث نمبر: 2758
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الأَشَجِّ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، أَنَّ أَبَا رَافِعٍ أَخْبَرَهُ، قَالَ: بَعَثَتْنِي قُرَيْشٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُلْقِيَ فِي قَلْبِي الْإِسْلَامُ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي وَاللَّهِ لَا أَرْجِعُ إِلَيْهِمْ أَبَدًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي لَا أَخِيسُ بِالْعَهْدِ وَلَا أَحْبِسُ الْبُرُدَ، وَلَكِنْ ارْجِعْ فَإِنْ كَانَ فِي نَفْسِكَ الَّذِي فِي نَفْسِكَ الْآنَ فَارْجِعْ"، قَالَ: فَذَهَبْتُ ثُمَّ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمْتُ، قَالَ بُكَيْرٌ: وَأَخْبَرَنِي أَنَّ أَبَا رَافِعٍ كَانَ قِبْطِيًّا، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا كَانَ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ فَأَمَّا الْيَوْمَ فَلَا يَصْلُحُ.
ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قریش نے مجھے (صلح حدیبیہ میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا، جب میں نے آپ کو دیکھا تو میرے دل میں اسلام کی محبت پیدا ہو گئی، میں نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میں ان کی طرف کبھی لوٹ کر نہیں جاؤں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نہ تو بدعہدی کرتا ہوں اور نہ ہی قاصدوں کو گرفتار کرتا ہوں، تم واپس جاؤ، اگر تمہارے دل میں وہی چیز رہی جو اب ہے تو آ جانا، ابورافع کہتے ہیں: میں قریش کے پاس لوٹ آیا، پھر دوبارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر مسلمان ہو گیا۔ بکیر کہتے ہیں: مجھے حسن بن علی نے خبر دی ہے کہ ابورافع قبطی غلام تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ اس زمانہ میں تھا اب یہ مناسب نہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 12013)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/ الکبری/ السیر (8674) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یعنی اسلام لے آنے والے قاصد کو کفار کی طرف لوٹا دینا اسی مدت کے اندر اور خاص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تھا، اب ایسا کرنا اسلامی کاز کے لئے بہتر نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1121  
´(جہاد کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابورافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک میں نہ تو عہد شکنی کرتا اور نہ قاصدوں و سفیروں کو قید کرتا ہوں۔ اسے ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1121»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الجهاد، باب في الإمام يستجن به في العهود، حديث:2758، وابن حبان (الإحسان):7 /191، حديث:4857.»
تشریح:
1. عہد شکنی اور غداری کرنا اسلام کی رو سے درست نہیں ہے۔
2. دراصل واقعہ یوں ہے کہ ابورافع اسلام قبول کرنے سے پہلے کافروں کی جانب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سفیر کی حیثیت سے آئے۔
آپ کا روئے انور اور رخ منور دیکھتے ہی وہ دائرۂ اسلام میں داخل ہونے کی سعادت سے بہرہ ور ہوگئے‘ پھر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اب میرا دل واپس جانے کے لیے تیار نہیں ہے‘ لہٰذا آپ مجھے یہیں روک لیں۔
تو اس موقع پر آپ نے فرمایا: میں عہدشکنی اور غداری نہیں کرتا اور نہ سفیروں کو اپنے پاس روکتا ہوں۔
3. اس سے معلوم ہوا کہ سفیروں کو بخیر و عافیت واپس بھیجنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
اگر وہ خود رہنے کی درخواست کریں‘ تب بھی انھیں واپس بھیج دینا چاہیے کیونکہ سفیر یا قاصد جس کے پاس آتا ہے گویا اس کی امان میں آتا ہے۔
4.اسلام نے سفیر کے احترام کا درس دیا ہے‘ خواہ کافر ہو یا مسلمان۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1121   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2758  
´عہد و پیمان میں امام رعایا کے لیے ڈھال ہے اس لیے امام جو عہد کرے اس کی پابندی لوگوں پر ضروری ہے۔`
ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قریش نے مجھے (صلح حدیبیہ میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا، جب میں نے آپ کو دیکھا تو میرے دل میں اسلام کی محبت پیدا ہو گئی، میں نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میں ان کی طرف کبھی لوٹ کر نہیں جاؤں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نہ تو بدعہدی کرتا ہوں اور نہ ہی قاصدوں کو گرفتار کرتا ہوں، تم واپس جاؤ، اگر تمہارے دل میں وہی چیز رہی جو اب ہے تو آ جانا، ابورافع کہتے ہیں: میں قریش کے پاس لوٹ آیا، پھر دوبارہ رسول الل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2758]
فوائد ومسائل:
امام ابو دائود کے قول کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابورافع کا یہ واقعہ اس وقت کا ہے، جب کافروں سے مسلمانوں کا یہ معاہدہ طے ہوا تھا کہ کافروں کے پاس سے آنے والے شخص کو واپس لوٹا دیا جائے گا۔
چاہے وہ مسلمان ہی ہو۔
اسی معاہدے کی وجہ سے نبی کریمﷺ نے حضرت ابو رافع کو لوٹایا۔
اب اس طرح کرنے کی ضرورت نہیں۔
الا یہ کہ اب بھی کسی جگہ اس قسم کا معاہدہ مسلمانوں اور کافروں کے درمیان ہوجائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2758