صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ -- کتاب: حج کے مسائل کا بیان
63. بَابُ مَنْ طَافَ بِالْبَيْتِ إِذَا قَدِمَ مَكَّةَ، قَبْلَ أَنْ يَرْجِعَ إِلَى بَيْتِهِ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّفَا:
باب: جو شخص (حج یا عمرہ کی نیت سے) مکہ میں آئے تو اپنے گھر لوٹ جانے سے پہلے طواف کرے پھر دوگانہ طواف ادا کرے پھر صفا پہاڑ پر جائے۔
حدیث نمبر: 1617
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا،" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا طَافَ بالبيت الطَّوَافَ الْأَوَّلَ يَخُبُّ ثَلَاثَةَ أَطْوَافٍ , وَيَمْشِي أَرْبَعَةً، وَأَنَّهُ كَانَ يَسْعَى بَطْنَ الْمَسِيلِ إِذَا طَافَ بَيْنَ الصَّفَا والمروة".
ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے انس بن عیاض نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ عمری نے، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت اللہ کا پہلا طواف (یعنی طواف قدوم) کرتے تو اس کے تین چکروں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوڑ کر چلتے اور چار میں معمول کے موافق چلتے پھر جب صفا اور مروہ کی سعی کرتے تو بطن مسیل (وادی) میں دوڑ کر چلتے۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1891  
´طواف میں رمل کا بیان۔`
نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حجر اسود سے حجر اسود تک رمل کیا، اور بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1891]
1891. اردو حاشیہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس حدیث اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی مذکورہ بالا حدیث میں جمع اور تطبیق یہ ہے۔ کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ بیان عمرۃ القضا ء کے متعلق ہے۔جو ہجرت کے ساتویں سال فتح مکہ سے قبل کیا گیا تھا۔اسوقت رمل حجر اسودسے رکن یمانی تک کیا گیا تھا۔رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان رمل نہیں کیاگیا تھا۔ جب کہ سیدنا عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں جوکچھ بیان ہوا ہے۔ یہ حجۃ الوداع کاواقعہ ہے۔ لہذا یہ بعد والی حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پہلی والی حدیث کی ناسخ ہے۔ مزید براں عمرۃ القضا اور حجۃ الوداع کے موقع پر کئے جانے والے دونوں رمل میں ایک بہت بڑا اور بنیادی فرق ہے۔ وہ یہ کہ عمرۃ القضا میں صرف مشرکین کو دکھانے اور اپنے آپ کو ان کی سوچ کے برعکس طاقتورظاہر کرنے کے لئے رمل کیا گیا تھا۔ حالانکہ اس وقت مسلمان جسمانی طور پر کمزور تھے۔ جب کہ حجۃ الوداع کے موقع پر ایسی کوئی بات نہیں تھی۔اس موقع پر مشرکین کوکچھ دکھانا مقصود تھا نہ نہ اپنی طاقت کا اظہار ہی بلکہ اس وقت صرف اور صرف رسول اللہ ﷺ کااتباع کرتے ہوئے رمل کیا گیا تھا۔اس لئے حجر اسودسے لے کر حجر اسود تک یعنی پورے چکر میں رمل کیا گیا۔واللہ اعلم۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1891   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1617  
1617. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ ہی سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب پہلا طواف کرتے تو پہلے تین چکروں میں دوڑتے اور باقی چار میں معمول کے مطابق چلتے۔ اور جب صفاومروہ کے درمیان سعی کرتے تو نالے کے وسط میں ذرا تیز دوڑتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1617]
حدیث حاشیہ:
(1)
بطن مسیل سے مراد وہ جگہ ہے جہاں سے بارش یا سیلاب کا پانی گزرتا تھا۔
اس نشیبی علاقے سے صفا و مروہ کی سعی کرتے وقت ذرا تیز دوڑنا چاہیے۔
امام بخاری ؒ نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ان دونوں روایات سے بھی ثابت کیا ہے کہ عمرے میں صرف بیت اللہ کا طواف کرنے سے عمرہ مکمل نہیں ہوتا جب تک صفا و مروہ کی سعی نہ کر لی جائے اگرچہ حضرت ابن عباس ؓ کا موقف اس کے خلاف ہے۔
(2)
بعض شارحین نے حضرت ابن عباس ؓ کا موقف بیان کیا ہے کہ جو کوئی حج اِفراد کی نیت کرے وہ جب بیت اللہ میں داخل ہو تو طواف نہ کرے جب تک وہ عرفات سے لوٹ کر نہ آئے۔
اگر اس نے طواف کر لیا تو حج کا احرام ختم ہو جائے گا، اس لیے وہ طواف کرنے ہی سے احرام کی پابندیوں سے آزاد ہو جائے گا۔
یہ قول بھی جمہور کے خلاف ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ عمرے کی تکمیل بیت اللہ کے طواف اور صفا و مروہ کی سعی سے ہو گی۔
اس کے بغیر عمرہ مکمل نہیں۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1617