صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ -- کتاب: حج کے مسائل کا بیان
67. بَابُ لاَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ وَلاَ يَحُجُّ مُشْرِكٌ:
باب: بیت اللہ کا طواف کوئی ننگا آدمی نہیں کر سکتا اور نہ کوئی مشرک حج کر سکتا ہے۔
حدیث نمبر: 1622
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قال يُونُسُ: قال ابْنُ شِهَابٍ: حَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ أَخْبَرَهُ،" أَنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بَعَثَهُ فِي الْحَجَّةِ الَّتِي أَمَّرَهُ عَلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ يَوْمَ النَّحْرِ فِي رَهْطٍ يُؤَذِّنُ فِي النَّاسِ أَلَا لَا يَحُجُّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِكٌ، وَلَا يَطُوفُ بالبيت عُرْيَانٌ".
ہم سے يحيىٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یونس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھ سے حمید بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس حج کے موقع پر جس کا امیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بنایا تھا۔ انہیں دسویں تاریخ کو ایک مجمع کے سامنے یہ اعلان کرنے کے لیے بھیجا تھا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج بیت اللہ نہیں کر سکتا اور نہ کوئی شخص ننگا رہ کر طواف کر سکتا ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1622  
1622. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، کہ حجۃالوداع سے قبل رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کو ایک سال امیر حج بنایا۔ انھوں نے مجھے دسویں ذوالحجہ چند آدمیوں کے ہمراہ لوگوں میں یہ منادی کرنے کے لیے بھیجا کہ اس سال کے بعد نہ کوئی مشرک حج کرے اور نہ کوئی برہنہ شخص کعبہ کا طواف کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1622]
حدیث حاشیہ:
عہد جاہلیت میں عام اہل عرب یہ کہہ کر کہ ہم نے ان کپڑوں میں گناہ کئے ہیں ان کو اتار دیتے اور پھر یا تو قریش سے کپڑے مانگ کر طواف کرتے یا پھر ننگے ہی طواف کرتے۔
اس پر آنحضرت ﷺ نے یہ اعلان کرایا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1622   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1622  
1622. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، کہ حجۃالوداع سے قبل رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کو ایک سال امیر حج بنایا۔ انھوں نے مجھے دسویں ذوالحجہ چند آدمیوں کے ہمراہ لوگوں میں یہ منادی کرنے کے لیے بھیجا کہ اس سال کے بعد نہ کوئی مشرک حج کرے اور نہ کوئی برہنہ شخص کعبہ کا طواف کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1622]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو سورہ براءت کا اعلان کرنے کے لیے ہمارے پیچھے روانہ کیا۔
وہ بھی ہمارے ساتھ اعلان کرتے تھے کہ آئندہ سال کوئی مشرک حج کے لیے نہ آئے اور نہ کوئی برہنہ ہو کر بیت اللہ کا طواف ہی کرے۔
(صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 369)
چنانچہ آئندہ سال حجۃ الوداع کے موقع پر کوئی مشرک حج کرنے کے لیے نہیں آیا تھا۔
(صحیح البخاري، الجزیة والموادعة، حدیث: 3177) (2)
دور جاہلیت میں قریش نے یہ بدعت ایجاد کی کہ باہر سے آنے والا شخص اپنے کپڑوں میں طواف نہیں کر سکتا بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی قریشی کے کپڑے لے کر طواف کرے (اس طرح وہ نذرانے وصول کرتے)
اور کسی کے لیے ایسا ناممکن ہو تو وہ ننگا ہی طواف کر لے۔
اگر کوئی اپنے کپڑوں میں طواف کر لیتا تو اسے لامحالہ وہ کپڑے پھینکنے پڑتے۔
اسلام نے ان تمام بدعات کا خاتمہ کر دیا اور اس کے ساتھ ہی قریش کی بیت اللہ پر اجارہ داری بھی ختم ہو گئی۔
(3)
اس سے ایک فقہی مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ طواف کرتے وقت اتنا لباس ضروری ہے جتنا نماز کے لیے ضروری ہے۔
(فتح الباري: 610/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1622