صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ -- کتاب: حج کے مسائل کا بیان
73. بَابُ الطَّوَافِ بَعْدَ الصُّبْحِ وَالْعَصْرِ:
باب: صبح اور عصر کے بعد طواف کرنا۔
حدیث نمبر: 1631
قَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ: وَرَأَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ، وَيُخْبِرُ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا حَدَّثَتْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَدْخُلْ بَيْتَهَا إِلَّا صَلَّاهُمَا".
عبدالعزیز نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو عصر کے بعد بھی دو رکعت نماز پڑھتے دیکھا تھا۔ وہ بتاتے تھے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی ان کے گھر آتے (عصر کے بعد) تو یہ دو رکعت ضرور پڑھتے تھے۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1631  
1631. حضرت عبد العزیز ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ کو دیکھا کہ وہ عصر کے بعد دو رکعت پڑھتے تھے۔ اور حضرت عائشہ ؓ کے حوالے سے حدیث بیان کرتے تھے کہ نبی ﷺ جب حضرت عائشہ ؓ کے گھر داخل ہوتے تو (عصر کے بعد) دورکعت ضرور پڑھتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1631]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؓ نے قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ احادیث و آثار سے نماز عصر اور نماز فجر کے بعد طواف اور صلاۃ طواف کا حکم بیان کیا ہے۔
اس عنوان کے تحت مختلف آثار پیش کیے ہیں۔
امام ؒ کے اندازِ بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاں اس سلسلے میں وسعت ہے، گویا انہوں نے حضرت جبیر بن مطعم ؓ سے مروی ایک حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اے بنو عبد مناف! اگر تمہیں اختیارات ملیں تو رات ہو یا دن کسی کو بیت اللہ کا طواف کرنے اور نماز پڑھنے سے مت روکنا۔
(صحیح ابن خزیمة: 226/4)
اس حدیث پر امام ابن خزیمہ نے بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:
مکہ مکرمہ میں فجر اور عصر کے بعد طواف اور نماز جائز ہے۔
آپ نے مزید فرمایا:
جن روایات میں نماز عصر کے بعد نماز پڑھنے کی ممانعت ہے اس سے مراد ہر قسم کی نماز نہیں بلکہ یہ ممانعت کچھ نمازوں کے متعلق ہے۔
(2)
امام بخاری نے اس سلسلے میں جو احادیث پیش کی ہیں ان کا تعلق صلاۃ طواف سے ہے جبکہ عنوان طواف کے متعلق ہے، چونکہ طواف بھی نماز کی طرح ہے یا طواف کے بعد نمازِ طواف ضروری ہے، اس لیے دونوں کا ایک ہی حکم ہے۔
حدیث عائشہ میں جن لوگوں کے متعلق آپ کا انکار ذکر ہوا ہے وہ طلوع شمس کے فورا بعد نماز پڑھنے کے خیال سے انتظار کرتے رہتے، اس لیے آپ نے ان کے اس عمل پر گرفت فرمائی۔
اسی طرح امام بخاری ؒ نے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے متعلق بیان کیا ہے کہ وہ نماز فجر کے بعد طواف کرتے اور نماز پڑھتے تھے۔
ہمارے نزدیک اوقات مکروہ میں عام نوافل پڑھنے کی ممانعت ہے لیکن جو نوافل کسی سبب کی وجہ سے پڑھے جائیں، مثلا تحیۃ المسجد، صلاۃ طواف اور وضو کی نماز وغیرہ تو اوقات مکروہ میں ان کی ادائیگی جائز ہے، اسی طرح فرض کی قضا بھی اوقات مکروہہ میں دی جا سکتی ہے۔
بہرحال امام بخاری کے ہاں بھی اس سلسلے میں وسعت ہے کہ صلاۃ طواف کو اوقات مکروہ میں ادا کیا جا سکتا ہے۔
اور یہ ضروری نہیں کہ طواف کے فورا بعد مقام ابراہیم کے پاس ہی یہ دو رکعتیں ادا کی جائیں بلکہ طواف کے بعد حرم سے باہر بھی انہیں پڑھا جا سکتا ہے جیسا کہ حضرت عمر ؓ کے عمل سے معلوم ہوتا ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1631