صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ -- کتاب: حج کے مسائل کا بیان
76. بَابُ مَا جَاءَ فِي زَمْزَمَ:
باب: زمزم کا بیان۔
حدیث نمبر: 1636
وَقَالَ عَبْدَانُ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: كَانَ أَبُو ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُحَدِّثُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فُرِجَ سَقْفِي وَأَنَا بمكة، فَنَزَلَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام فَفَرَجَ صَدْرِي، ثُمَّ غَسَلَهُ بِمَاءِ زَمْزَمَ، ثُمَّ جَاءَ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مُمْتَلِئٍ حِكْمَةً وَإِيمَانًا فَأَفْرَغَهَا فِي صَدْرِي، ثُمَّ أَطْبَقَهُ، ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي فَعَرَجَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، قَالَ جِبْرِيلُ لِخَازِنِ السَّمَاءِ الدُّنْيَا: افْتَحْ، قَالَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ
اور عبدان نے کہا کہ مجھ کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہمیں یونس نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہوں نے کہا کہ ہم سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب میں مکہ میں تھا تو میری (گھر کی) چھت کھلی اور جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے۔ انہوں نے میرا سینہ چاک کیا اور اسے زمزم کے پانی سے دھویا۔ اس کے بعد ایک سونے کا طشت لائے جو حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا۔ اسے انہوں نے میرے سینے میں ڈال دیا اور پھر سینہ بند کر دیا۔ اب وہ مجھے ہاتھ سے پکڑ کر آسمان دنیا کی طرف لے چلے۔ آسمان دنیا کے داروغہ سے جبرائیل علیہ السلام نے کہا دروازہ کھولو۔ انہوں نے دریافت کیا کون صاحب ہیں؟ کہا جبرائیل!۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1636  
1636. حضرت ابو ذر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے گھر کی چھت کھول دی گئی جبکہ میں مکہ مکرمہ میں تھا۔ حضرت جبریل ؑ نازل ہوئے تو انھوں نے میرا سینہ چاک کیا، اسے آپ نے زمزم سے دھویا۔ پھر سونے کا ایک طشت لے کر آئے جو ایمان و حکمت سے بھرا ہوا تھا، اسے میرے سینے میں انڈیل کر سینہ بند کر دیا۔ پھر میرا ہاتھ پکڑا اور آسمان دنیا کی طرف اوپر چڑھ گئے، حضرت جبریل ؑ نے آسمان دنیا کے داروغے سے کہا: دروازہ کھولو۔ اس نے پوچھا: کون ہے؟فرمایا: میں جبریل ؑ ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1636]
حدیث حاشیہ:
(1)
زمزم وہ سدا بہار چشمہ ہے جو بیت اللہ سے کچھ فاصلے پر مسجد حرام میں حضرت جبرئیل ؑ کے پَر مارنے سے پھوٹ نکلا تھا۔
اس عظیم الشان قدیم کنویں کی تاریخ حضرت اسماعیل ؑ کی شیر خواری سے شروع ہوتی ہے۔
یہ مبارک چشمہ پیاس کی بے تابی میں آپ کے زمین پر ایڑیاں رگڑنے سے فوارے کی طرح اس بے آب و گیاہ اور سنگلاخ وادی میں ابلا تھا۔
آپ کی والدہ ماجدہ حضرت ہاجرہ نے جب اپنے لخت جگر کے زیر قدم یہ نعمت دیکھی تو باغ باغ ہو گئیں۔
(2)
امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے ماء زمزم کی فضیلت ثابت کی ہے کہ معراج کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کا سینہ مبارک اسی پانی سے دھویا گیا تھا۔
اس کے علاوہ متعدد احادیث ماء زمزم کی فضیلت کے متعلق مروی ہیں مگر امام بخاری ؒ کی شرط کے مطابق مذکورہ حدیث تھی جسے انہوں نے بیان کر دیا۔
صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق آب زمزم کو ایک بہترین اور بابرکت مشروب کے علاوہ اسے خوراک بھی قرار دیا گیا ہے اور بیماروں کے لیے بطور دوا بھی تجویز کیا گیا ہے۔
(صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث: 6359 (2473)
، و صحیح الجامع للألباني: 230/1)

نیز حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
زمزم کا پانی جس مقصد کے لیے پیا جائے اللہ اسے پورا کرتا ہے۔
(سنن ابن ماجة، المناسك، حدیث: 3062) (3)
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ اس کا نام زمزم اس لیے رکھا گیا ہے کہ یہ کثیر مقدار میں ہے اور اس کے جمع ہونے کی وجہ سے بھی اسے زمزم کہا جاتا ہے۔
(فتح الباري: 623/3) (4)
واضح رہے کہ چشمہ زمزم بیت اللہ سے چالیس ہاتھ کے فاصلے پر ہے۔
(عمدةالقاري: 217/6)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1636