صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ -- کتاب: حج کے مسائل کا بیان
77. بَابُ طَوَافِ الْقَارِنِ:
باب: قران کرنے والا ایک طواف کرے یا دو؟
حدیث نمبر: 1639
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، دَخَلَ ابْنُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ وَظَهْرُهُ فِي الدَّارِ، فَقَالَ:" إِنِّي لَا آمَنُ أَنْ يَكُونَ الْعَامَ بَيْنَ النَّاسِ قِتَالٌ فَيَصُدُّوكَ عَنْ البيت فَلَوْ أَقَمْتَ، فَقَالَ: قَدْ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَالَ كُفَّارُ قُرَيْشٍ بَيْنهُ وَبَيْنَ البيت، فَإِنْ حِيلَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ أَفْعَلُ كَمَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ سورة الأحزاب آية 21، ثُمَّ قَالَ: أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ مَعَ عُمْرَتِي حَجًّا، قَالَ: ثُمَّ قَدِمَ فَطَافَ لَهُمَا طَوَافًا وَاحِدًا".
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے نافع نے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے لڑکے عبداللہ بن عبداللہ ان کے یہاں گئے۔ حج کے لیے سواری گھر میں کھڑی ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے خطرہ ہے کہ اس سال مسلمانوں میں آپس میں لڑائی ہو جائے گی اور آپ کو وہ بیت اللہ سے روک دیں گے۔ اس لیے اگر آپ نہ جاتے تو بہتر ہوتا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے گئے تھے (عمرہ کرنے صلح حدیبیہ کے موقع پر) اور کفار قریش نے آپ کو بیت اللہ تک پہنچنے سے روک دیا تھا۔ اس لیے اگر مجھے بھی روک دیا گیا تو میں بھی وہی کام کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا اور تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے عمرہ کے ساتھ حج (اپنے اوپر) واجب کر لیا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر آپ مکہ آئے اور دونوں عمرہ اور حج کے لیے ایک ہی طواف کیا۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 632  
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان`
سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود قربانی حجامت کرانے سے پہلے کی اور اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اس کا حکم دیا۔ (بخاری) [بلوغ المرام/حدیث: 632]
632راوئ حدیث:
حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ مسور کے میم کے نیچے کسرہ سین ساکن اور واو پر فتحہ ہے۔ مخرمہ میں میم پر فتحہ خا ساکن اور را پر فتحہ ہے۔ زہری قرشی ہیں۔ صاحب فضل لوگوں میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مکہ منتقل ہو گئے۔ یزید بن معاویہ نے جب 64 ہجری کے آغاز میں مکے کا محاصرہ کیا تو اس وقت نماز پڑھتے ہوئے انہیں منجنیق کا پتھر آ کر لگا اور وہ وفات پا گئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 632   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1639  
1639. حضرت رفع سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن عمر ؓ کے پاس ان کے بیٹے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے جبکہ ان کی سواری ان کے گھر میں بالکل تیار تھی انھوں نے عرض کیا: مجھے اندیشہ ہے کہ اس سال لوگوں میں لڑائی ہو جائے گی اور وہ آپ کو بیت اللہ جانے سے روک دیں گے، بنا بریں آپ کا یہیں ٹھہرنا مناسب ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ بھی(عمرے کے لیے) تشریف لے گئے تھے تو کفار قریش آپ کے اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہوگئے، لہٰذا اگر کوئی میرے اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہوا تو میں بھی وہی کروں گا جو رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا: بے شک رسول اللہ (ﷺ) میں تمھارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ پھر فرمایا کہ تم گواہ رہو، میں نے عمرے کے ساتھ حج کو بھی واجب کر لیا ہے۔ روای کہتے ہیں: پھر آپ مکہ مکرمہ آئےاور حج و عمرہ دونوں کے لیے ایک ہی طواف [صحيح بخاري، حديث نمبر:1639]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اپنا دعویٰ ثابت کرنے کے لیے حضرت ابن عباس ؓ سے مروی حدیث دو طرق سے پیش کی ہے۔
دونوں میں وضاحت ہے کہ قارن کے لیے حج اور عمرہ دونوں کا ایک طواف اور ایک سعی کافی ہے۔
ایک روایت میں مزید صراحت ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جس نے حج اور عمرے کا اکٹھا احرام باندھا اسے ان دونوں سے ایک طواف اور ایک سعی ہی کافی ہو جائے گی حتی کہ وہ ان دونوں سے بیک وقت حلال ہو جائے۔
(جامع الترمذي، الحج، حدیث: 948) (2)
حج قران کرنے والا اگر ایک طواف اور ایک سعی کرتا ہے تو صحیح احادیث کے اعتبار سے ایسا کرنا صحیح ہے اور جن روایات میں اس موقف کے خلاف بیان ہوا ہے وہ صحیح احادیث کے مقابلے میں کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتیں۔
اس سلسلے میں فتح الباری:
(3/625)
کا مطالعہ مفید رہے گا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1639