صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ -- کتاب: حج کے مسائل کا بیان
77. بَابُ طَوَافِ الْقَارِنِ:
باب: قران کرنے والا ایک طواف کرے یا دو؟
حدیث نمبر: 1640
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ،" أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَرَادَ الْحَجَّ عَامَ نَزَلَ الْحَجَّاجُ بِابْنِ الزُّبَيْرِ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ النَّاسَ كَائِنٌ بَيْنَهُمْ قِتَالٌ وَإِنَّا نَخَافُ أَنْ يَصُدُّوكَ، فَقَالَ: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ سورة الأحزاب آية 21، إِذًا أَصْنَعَ كَمَا صَنَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنِّي أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ عُمْرَةً، ثُمَّ خَرَجَ حَتَّى إِذَا كَانَ بِظَاهِرِ الْبَيْدَاءِ، قَالَ: مَا شَأْنُ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ إِلَّا وَاحِدٌ، أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ حَجًّا مَعَ عُمْرَتِي، وَأَهْدَى هَدْيًا اشْتَرَاهُ بِقُدَيْدٍ وَلَمْ يَزِدْ عَلَى ذَلِكَ، فَلَمْ يَنْحَرْ وَلَمْ يَحِلَّ مِنْ شَيْءٍ حَرُمَ مِنْهُ، وَلَمْ يَحْلِقْ وَلَمْ يُقَصِّرْ حَتَّى كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ فَنَحَرَ وَحَلَقَ، وَرَأَى أَنْ قَدْ قَضَى طَوَافَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ بِطَوَافِهِ الْأَوَّلِ , وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: كَذَلِكَ فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے نافع سے بیان کیا کہ جس سال حجاج عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے مقابلے میں لڑنے آیا تھا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے جب اس سال حج کا ارادہ کیا تو آپ سے کہا گیا کہ مسلمانوں میں باہم جنگ ہونے والی ہے اور یہ بھی خطرہ ہے کہ آپ کو حج سے روک دیا جائے۔ آپ نے فرمایا تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔ ایسے وقت میں میں بھی وہی کام کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔ تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے اوپر عمرہ واجب کر لیا ہے۔ پھر آپ چلے اور جب بیداء کے میدان میں پہنچے تو آپ نے فرمایا کہ حج اور عمرہ تو ایک ہی طرح کے ہیں۔ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے عمرہ کے ساتھ حج بھی واجب کر لیا ہے۔ آپ نے ایک قربانی بھی ساتھ لے لی جو مقام قدید سے خریدی تھی۔ اس کے سوا اور کچھ نہیں کیا۔ دسویں تاریخ سے پہلے نہ آپ نے قربانی کی نہ کسی ایسی چیز کو اپنے لیے جائز کیا جس سے (احرام کی وجہ سے) آپ رک گئے تھے۔ نہ سر منڈوایا نہ بال ترشوائے دسویں تاریخ میں آپ نے قربانی کی اور بال منڈوائے۔ آپ کا یہی خیال تھا کہ آپ نے ایک طواف سے حج اور عمرہ دونوں کا طواف ادا کر لیا ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح کیا تھا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1640  
1640. حضرت نافع ہی سے روایت ہے کہ جس سال حجاج بن یوسف حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ سے جنگ کا ارادہ رکھتا تھا، اس سال حضرت ابن عمر ؓ نے حج کا ارادہ کیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے عرض کیا گیا کہ لوگوں میں جنگ وقتال ہونے والا ہے، ہمیں خطرہ ہے کہ لوگ آپ کو روک دیں گے (لہٰذا آپ مکہ مکرمہ نہ جائیں) اس پر انھوں نے فرمایا: تمھارے لیے رسول اللہ(ﷺ)کی حیات طیبہ میں بہترین نمونہ ہے۔ اس وقت میں بھی وہی کروں گا جو رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا۔ میں تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے عمرے کو واجب کرلیا ہے۔ پھر وہ روانہ ہوئے۔ جب مقام بیداء پہنچے تو فرمایا: اور عمرے کے ساتھ حج بھی واجب کر لیاہے۔ اس کے بعد ہدی بھیج دی جو قدید سے خریدی تھی۔ اس سے زیادہ کچھ نہ کیا، نہ تو نحر کیا اور نہ کوئی ایسا کام ہی کیا جو احرام کے باعث حرام تھا، نہ سر منڈوایا اور نہ بال ہی چھوٹے کرائے، یہاں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1640]
حدیث حاشیہ:
پہلے عبداللہ بن عمر ؓ نے صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا۔
پھر انہوں نے خیال کیا کہ صرف عمرہ کرنے سے حج اور عمرہ دونوں یعنی قران کرنا بہتر ہے تو حج کی بھی نیت باندھ لی اور پکار کرلوگوں سے اس لیے کہہ دیا کہ اور لوگ بھی ان کی پیروی کریں۔
بیداء مکہ اور مدینہ کے درمیان ذوالحلیفہ سے آگے ایک مقام ہے۔
قدید بھی جحفہ کے نزدیک ایک جگہ کا نام ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1640   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1640  
1640. حضرت نافع ہی سے روایت ہے کہ جس سال حجاج بن یوسف حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ سے جنگ کا ارادہ رکھتا تھا، اس سال حضرت ابن عمر ؓ نے حج کا ارادہ کیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے عرض کیا گیا کہ لوگوں میں جنگ وقتال ہونے والا ہے، ہمیں خطرہ ہے کہ لوگ آپ کو روک دیں گے (لہٰذا آپ مکہ مکرمہ نہ جائیں) اس پر انھوں نے فرمایا: تمھارے لیے رسول اللہ(ﷺ)کی حیات طیبہ میں بہترین نمونہ ہے۔ اس وقت میں بھی وہی کروں گا جو رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا۔ میں تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے عمرے کو واجب کرلیا ہے۔ پھر وہ روانہ ہوئے۔ جب مقام بیداء پہنچے تو فرمایا: اور عمرے کے ساتھ حج بھی واجب کر لیاہے۔ اس کے بعد ہدی بھیج دی جو قدید سے خریدی تھی۔ اس سے زیادہ کچھ نہ کیا، نہ تو نحر کیا اور نہ کوئی ایسا کام ہی کیا جو احرام کے باعث حرام تھا، نہ سر منڈوایا اور نہ بال ہی چھوٹے کرائے، یہاں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1640]
حدیث حاشیہ:
(1)
آخری عبارت کا مطلب یہ نہیں کہ حجراسود کے بوسے کے بعد احرام کھول دیتے تھے بلکہ طواف کرنے کے بعد صفا و مروہ کے درمیان سعی کرتے، پھر سر منڈوا کر احرام کھولتے تھے۔
حضرت عروہ سے مروی یہ حدیث دراصل ایک سوال کا جواب ہے کہ محمد بن عبدالرحمٰن سے ایک عراقی نے کہا کہ تم حضرت عروہ بن زبیر سے دریافت کرو:
اگر ایک شخص حج کا احرام باندھے تو کیا بیت اللہ کا طواف کر کے حلال ہو سکتا ہے؟ اگر وہ کہیں کہ نہیں تو ایک شخص (عبداللہ بن عباسؓ)
کے حوالے سے کہنا کہ ان کے نزدیک تو حلال ہو جاتا ہے، چنانچہ محمد بن عبدالرحمٰن نے جب سوال کیا تو حضرت عروہ نے فرمایا:
جب کوئی حج کا احرام باندھے تو جب تک وہ حج سے فارغ نہ ہو جائے حلال نہیں ہو سکتا۔
اس کے بعد یہ حدیث بیان کی۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 3001(1235) (2)
امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ طواف کرتے وقت انسان کو باوضو ہونا چاہیے۔
لیکن اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا ایک فعل ذکر ہوا ہے جو وجوب پر دلالت نہیں کرتا، اس بنا پر طواف کے لیے وضو کو واجب یا شرط قرار دینا صحیح نہیں۔
اس کا حافظ ابن حجر ؒ نے بایں الفاظ جواب دیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اس عمل کو آپ کے فرمان کی روشنی میں دیکھا جائے۔
آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا:
مجھ سے حج کا طریقہ سیکھ لو۔
(سنن الکبریٰ للبیھقي: 125/5)
اس امر کے تحت جتنے بھی افعال ہوں گے وہ سب واجب ہوں گے۔
(فتح الباري: 627/3)
اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو ہمارے لیے نمونہ بنا کر مبعوث کیا ہے، اس لیے آپ کے زندگی بھر کے تمام کام ہمارے لیے نمونہ ہیں، اس کی تقسیم کہ فلاں کام ضروری ہے اور فلاں غیر ضروری یہ سب فقہاء کی باتیں ہیں، جنہیں بعد میں ایجاد کیا گیا ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1640