صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ -- کتاب: حج کے مسائل کا بیان
84. بَابُ الصَّلاَةِ بِمِنًى:
باب: منی میں نماز پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1657
حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ بْنُ عُقْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:"صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ، وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ رَكْعَتَيْنِ، وَمَعَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ تَفَرَّقَتْ بِكُمُ الطُّرُقُ فَيَا لَيْتَ حَظِّي مِنْ أَرْبَعٍ رَكْعَتَانِ مُتَقَبَّلَتَانِ".
ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے عبدالرحمٰن بن یزید نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ میں دو رکعت نماز پڑھی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی دو ہی رکعت پڑھی اور عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی دو ہی رکعت، لیکن پھر ان کے بعد تم میں اختلاف ہو گیا تو کاش ان چار رکعتوں کے بدلے مجھ کو دو رکعات ہی نصیب ہوتیں جو (اللہ کے ہاں) قبول ہو جائیں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1657  
1657. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں منیٰ میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ دو رکعتیں پڑھیں، حضرت ابو بکر ؓ کے ساتھ دو ہی رکعتیں ادا کیں، پھر حضرت عمرفاروق ؓ کے ساتھ بھی دو رکعتیں پڑھیں۔ پھر تمہارے طریقے مختلف ہوگئے۔ کاش!چار رکعات کے بجائے مجھے ایسی دو رکعتیں ہی نصیب ہوجائیں جنھیں اللہ کے ہاں شرف پذیرائی حاصل ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1657]
حدیث حاشیہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے بطور اظہار ناراضگی فرمایا کہ کاش میری دو رکعات ہی اللہ کے ہاں قبول ہو جائیں۔
ظاہر ہے کہ اس قسم کے فروعی اور اجتہادی اختلاف کی بنا پر کسی کو بھی مورد طعن نہیں بنایا جاسکتا۔
حضرت عثمان ؓ کے سامنے کچھ مصالح ہوں گے جن کی بنا پر انہوں نے ایسا کیا ورنہ شروع خلافت میں وہ بھی قصر ہی کیا کرتے تھے۔
قصر کرنا بہرحال اولی ہے کہ یہ رسول کریم ﷺ کی سنت ہے، آپ کی سنت ہر حال میں مقدم ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے ارشاد کے:
فَيَا لَيْتَ حَظِّي مِنْ أَرْبَعٍ رَكْعَتَانِ مُتَقَبَّلَتَانِ کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
والذي يظهر أنه قال ذلك على سبيل التفويض إلى الله لعدم اطلاعه على الغيب وهل يقبل الله صلاته أم لا فتمنى أن يقبل منه من الأربع التي يصليها ركعتان ولو لم يقبل الزائد وهو يشعر بأن المسافر عنده مخير بين القصر والإتمام والركعتان لا بد منهما ومع ذلك فكان يخاف أن لا يقبل منه شيء فحاصله أنه قال إنما أتم متابعة لعثمان وليت الله قبل مني ركعتين من الأربع۔
یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے جو فرمایا یہ آپ نے اپنا عمل اللہ کو سونپا اس لیے کہ آپ کو غیب پر اطلاع نہ تھی کہ اللہ پاک آپ کی نماز قبول کرتا ہے یا نہیں، اس لیے تمنا فرمائی کہ کاش اللہ میری چار کعات میں سے دو رکعات کو قبول فرمالے اگرچہ وہ زائد رکعات کوقبول نہ فرمائے اور یہ اس لیے بھی کہ مسافر کو نماز پوری کرنے اورقصر کرنے کا آپ کے نزدیک اختیار تھا۔
اور دورکعات کے بغیر تو گزارہ نہیں ہے۔
اس کے باوجود وہ ڈرتے تھے کہ شاید کچھ بھی قبول نہ ہو، پس حاصل بحث یہ ہے کہ آپ نے حضرت عثمان ؓ کی متابعت میں نماز کو پورا فرمایا اور یہ کہا کہ کاش اللہ پاک ان چار رکعات میں سے میری دو رکعات ہی کو قبول فرما لے۔
اللہ والوں کی یہی شان ہے کہ وہ کچھ بھی نیکی کریں، کتنے ہی تقوی شعار ہوں مگر پھر بھی ان کو یہی خطرہ لاحق رہتا ہے کہ ان کی نیکیاں دربار الٰہی میں قبول ہوتی ہیں یا رد ہو جاتی ہیں۔
ایسے اللہ والے آج کل عنقاءہیں جب کہ اکثریت ریاکاروں بظاہر تقویٰ شعاروں و بباطن دنیا داروں کی رہ گئی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1657   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1657  
1657. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں منیٰ میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ دو رکعتیں پڑھیں، حضرت ابو بکر ؓ کے ساتھ دو ہی رکعتیں ادا کیں، پھر حضرت عمرفاروق ؓ کے ساتھ بھی دو رکعتیں پڑھیں۔ پھر تمہارے طریقے مختلف ہوگئے۔ کاش!چار رکعات کے بجائے مجھے ایسی دو رکعتیں ہی نصیب ہوجائیں جنھیں اللہ کے ہاں شرف پذیرائی حاصل ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1657]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت عثمان ؓ نے منیٰ میں نماز پوری پڑھنا شروع کی تو کسی نے حضرت ابن مسعود ؓ کے پاس اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے إنا لله وإنا إليه راجعون پڑھا اور مذکورہ وضاحت فرمائی۔
(صحیح البخاري، التقصیر، حدیث: 1084)
ایک روایت میں ہے کہ سائل نے ان سے کہا:
آپ ان کی اقتدا میں چار کیوں ادا کرتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ فتنے اور اختلاف سے بچنے کی خاطر ایسا کرتا ہوں، مبادا میری وجہ سے کوئی فساد پیدا ہو جائے۔
اس کے باوجود آپ ڈرتے تھے کہ خلافِ سنت ہونے کی وجہ سے شاید یہ عمل کبھی اللہ کے ہاں قبول نہ ہو۔
کاش! ان چار رکعات میں سے میری دو ہی قبول ہو جائیں۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:
آپ نے اپنا عمل اللہ کے حوالے فرمایا کیونکہ آپ کو غیب پر اطلاع نہ تھی، اس لیے تمنا فرمائی کہ کاش! اللہ تعالیٰ میری ان چار رکعات میں سے دو ہی کو قبول کرے، زائد دو رکعات قبول نہ کرے۔
(فتح الباري: 643/3) (2)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فروعی اختلاف کی وجہ سے امام کی متابعت اور اقتدا ترک کر دینا دانشمندی نہیں، چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے کہا گیا کہ آپ حضرت عثمان ؓ کی حرف گیری کرتے ہیں اور ان کے پیچھے چار رکعات پڑھتے ہیں؟ اس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ میرے نزدیک ایسے مسائل میں اختلاف کی وجہ سے پیچھے رہنا شر کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہے۔
(سنن أبي داود، المناسك، حدیث: 1960)
امام ابوداود ؒ نے حضرت عثمان ؓ کے متعلق چند وجوہات ذکر کی ہیں جن کی بنا پر وہ منیٰ میں حج کے دوران نماز پوری پڑھتے تھے۔
(سنن أبي داود، المناسك، حدیث: 1964،1963،1961)
ہم ان وجوہات کی تفصیل اور ان کے جوابات کتاب تقصیر الصلاة میں بیان کر آئے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1657