سنن ابي داود
كِتَابُ الْإِجَارَةِ -- کتاب: اجارے کے احکام و مسائل
16. باب فِي النَّهْىِ عَنِ الْغِشِّ
باب: خرید و فروخت میں فریب اور دھوکہ دھڑی منع ہے۔
حدیث نمبر: 3452
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الْعَلَاءِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" مَرَّ بِرَجُلٍ يَبِيعُ طَعَامًا، فَسَأَلَهُ كَيْفَ تَبِيعُ؟، فَأَخْبَرَهُ، فَأُوحِيَ إِلَيْهِ أَنْ أَدْخِلْ يَدَكَ فِيهِ، فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِيهِ، فَإِذَا هُوَ مَبْلُولٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَيْسَ مِنَّا مَنْ غَشَّ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک آدمی کے پاس سے گزرے جو غلہ بیچ رہا تھا آپ نے اس سے پوچھا: کیسے بیچتے ہو؟ تو اس نے آپ کو بتایا، اسی دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعہ حکم ملا کہ اس کے غلہ (کے ڈھیر) میں ہاتھ ڈال کر دیکھئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلہ کے اندر ہاتھ ڈال کر دیکھا تو وہ اندر سے تر (گیلا) تھا تو آپ نے فرمایا: جو شخص دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے (یعنی دھوکہ دہی ہم مسلمانوں کا شیوہ نہیں ہے)۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الإیمان 43 (102)، سنن الترمذی/البیوع 74 (1315)، سنن ابن ماجہ/التجارات 36 (2224)، (تحفة الأشراف: 14022)، وقد أخرجہ: حم(2/242) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2224  
´دھوکا دینا منع ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے جو گیہوں (غلہ) بیچ رہا تھا، آپ نے اپنا ہاتھ اس کے اندر ڈالا تو وہ «مغشوش» (غیر خالص اور دھوکے والا گڑبڑ) تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو دھوکہ فریب دے، وہ ہم میں سے نہیں ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2224]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
عالم اور حکمران کو عوام کے حالات سے براہ راست آگاہی حاسل کرنا اور ان کی غلطیوں پر بروقت تنبیہ کرنا ضروری ہے۔

(2)
غلے میں دھوکا یہ تھا کہ بارش میں کچھ غلہ بھیگ گیا تھا۔
غلے کے مالک نے خشک غلہ اوپر کر دیا، اس طرح گیلا نیچے چھپ گیا۔ دیکھیے: (صحيح مسلم، الإيمان، باب قول النبيﷺ من غشنا فليس منا، حديث: 101)

(2)
  دھوکے کی کئی صورتیں ہیں، وہ سب حرام ہیں، مثلاً:
جھوٹ کو چرب زبانی سے سچ ثابت کرنے کی کوشش کرنا، باطل کو حق کے رنگ میں پیش کرنا، سودے کا عیب ظاہر نہ کرنا اور اچھے مال میں ادنیٰ اور نکما مال ملا کر عمدہ مال کی قیمت وصول کرنا۔
وغیرہ
(4)
ہم میں سے نہیں۔
کا مطلب ہے کہ وہ مومنوں کے طریقے پر نہیں۔
ایک روایت میں یہ لفظ ہیں (فَلَیْسَ مِنِّیْ)
 وہ مجھ سے نہیں اس کا بھی یہی مطلب ہے کہ وہ میرے طریقے پر نہیں، میرے امتی کو یہ حرکت زیب نہیں دیتی، اس لیے ہر مسلمان کو ہر قسم کی دھوکا دہی سے اجتناب کرنا چاہیے۔

(5)
  امتحان میں ناجائز ذرائع، نقل وغیرہ اختیار کرنا، یا ممتحن کا طالب علم کو اس کے استحقاق سے زیادہ نمبردے دینا بھی دھوکے میں شامل ہے۔
اس سے مستحق افراد کی حق تلفی ہوتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2224   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1315  
´بیع میں دھوکہ دینے کی حرمت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک غلہ کے ڈھیر سے گزرے، تو آپ نے اس کے اندر اپنا ہاتھ داخل کر دیا، آپ کی انگلیاں تر ہو گئیں تو آپ نے فرمایا: غلہ والے! یہ کیا معاملہ ہے؟ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بارش سے بھیگ گیا ہے، آپ نے فرمایا: اسے اوپر کیوں نہیں کر دیا تاکہ لوگ دیکھ سکیں، پھر آپ نے فرمایا: جو دھوکہ دے ۱؎، ہم میں سے نہیں ہے ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1315]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
بیع میں دھوکہ دہی کی مختلف صورتیں ہیں،
مثلاً سودے میں کوئی عیب ہو اسے ظاہر نہ کرنا،
اچھے مال میں ردّی اورگھٹیا مال کی ملاوٹ کردینا،
سودے میں کسی اورچیزکی ملاوٹ کردینا تاکہ اس کا وزن زیادہ ہوجائے وغیرہ وغیرہ۔

2؎:
ہم میں سے نہیں کا مطلب ہے مسلمانوں کے طریقے پر نہیں،
اس کا یہ فعل مسلمان کے فعل کے منافی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1315