صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ -- کتاب: حج کے مسائل کا بیان
101. بَابُ التَّلْبِيَةِ وَالتَّكْبِيرِ غَدَاةَ النَّحْرِ، حِينَ يَرْمِي الْجَمْرَةَ، وَالاِرْتِدَافِ فِي السَّيْرِ:
باب: دسویں تاریخ کو صبح تک تکبیر اور لبیک کہتے رہنا جمرہ عقبہ کی رمی تک اور چلتے ہوئے (سواری پر کسی کو) اپنے پیچھے بٹھا لینا۔
حدیث نمبر: 1686
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ يُونُسَ الْأَيْلِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا كَانَ رِدْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عَرَفَةَ إِلَى الْمُزْدَلِفَةِ، ثُمَّ أَرْدَفَ الْفَضْلَ مِنْ الْمُزْدَلِفَةِ إِلَى مِنًى، قَالَ: فَكِلَاهُمَا قَالَا:" لَمْ يَزَلِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُلَبِّي حَتَّى رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ".
ہم سے زہیر بن حرب نے بیان کیا، ان سے وہب بن جریر نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے بیان کیا، ان سے یونس ایلی نے، ان سے زہری نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما عرفات سے مزدلفہ تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ سے منی جاتے وقت فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کو اپنے پیچھے بٹھا لیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان دونوں حضرات نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ عقبہ کی رمی تک مسلسل لبیک کہتے رہے۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1686  
1686. حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے کہ حضرت اسامہ بن زید ؓ عرفہ سے مزدلفہ تک رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھے تھے۔ پھر آپ نے مزدلفہ سے منیٰ تک حضرت فضل بن عباس ؓ کو اپنے پیچھے بٹھایا۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ دونوں حضرات کا مشترکہ بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ جمرہ عقبہ کو رمی کرنے تک تلبیہ کہتے رہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1686]
حدیث حاشیہ:
(1)
قربانی کے دن پہلا کام جمرہ عقبہ کی رمی کرنا ہے۔
رمی کرنے تک تلبیہ اور تکبیر کہتے رہنا چاہیے۔
(2)
اب یہاں تین مسائل بیان کیے جاتے ہیں:
٭ امام بخاری ؒ نے جو روایت پیش کی ہے اس میں تلبیے کا ذکر ہے جبکہ عنوان میں آپ نے تکبیر کو بھی بیان کیا ہے۔
دراصل امام بخاری ؒ نے عنوان سے اس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں تکبیر کا بھی ذکر ہے۔
امام احمد نے اس حدیث کو حضرت عبداللہ ؓ سے بیان کیا ہے، فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نکلا، آپ نے جمرہ عقبہ کو رمی کرنے تک تلبیہ ترک نہیں فرمایا۔
کبھی کبھی تلبیہ کہتے وقت اللہ أکبر بھی کہتے تھے۔
(مسندأحمد: 417/1)
٭ تلبیہ کب ختم کرنا چاہیے؟ رمی شروع کرتے وقت یا اس کے ختم ہونے کے بعد؟ صحیح ابن خزیمہ میں اس کی وضاحت ہے کہ آخری کنکری مارنے تک تلبیہ جاری رہنا چاہیے، چنانچہ حضرت فضل بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ عرفات سے واپس ہوا، آپ آخری جمرے کو رمی کرنے تک تلبیہ کہتے رہے، پھر کنکری مارتے وقت اللہ أکبر کہتے اور آخری کنکری مارنے تک تلبیہ بھی جاری رکھا۔
(صحیح ابن خزیمة: 282/4، حدیث: 2887)
٭ جمرہ عقبہ کی رمی کا وقت طلوع آفتاب کے بعد ہے، چنانچہ امام ابن منذر کہتے ہیں کہ رمی جمار طلوع آفتاب کے بعد کی جائے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے اور طلوع فجر سے پہلے رمی کرنا درست نہیں۔
ایسا کرنے والا سنت کا مخالف ہو گا۔
ہاں، اگر کسی نے ایسے کیا تو پھر اسے دوبارہ رمی کرنے کی ضرورت نہیں، اس لیے کہ مجھے کوئی ایسا شخص معلوم نہیں جو اسے ناکافی خیال کرتا ہو۔
(فتح الباري: 668/3)
واضح رہے کہ حضرت اسامہ بن زید ؓ بھی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے جب آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی فرمائی، چنانچہ حضرت ام حصین ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت اسامہ بن زید اور حضرت بلال ؓ کو حجۃ الوداع کے موقع پر دیکھا ایک نے رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی کی لگام پکڑ رکھی تھی اور دوسرے نے گرمی سے بچاؤ کے لیے کپڑا تان رکھا تھا حتی کہ آپ جمرہ عقبہ کی رمی سے فارغ ہو گئے۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 3138(1298)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1686