صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ -- کتاب: حج کے مسائل کا بیان
108. بَابُ إِشْعَارِ الْبُدْنِ:
باب: قربانی کے جانور کا اشعار کرنا۔
وَقَالَ عُرْوَةُ: عَنْ الْمِسْوَرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: قَلَّدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْهَدْيَ وَأَشْعَرَهُ وَأَحْرَمَ بِالْعُمْرَةِ.
‏‏‏‏ اور عروہ نے مسور سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدی کو ہار پہنایا اور اس کا اشعار کیا، پھر عمرہ کے لیے احرام باندھا تھا۔
حدیث نمبر: 1699
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا أَفْلَحُ بْنُ حُمَيْدٍ، عَنْ الْقَاسِمِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" فَتَلْتُ قَلَائِدَ هَدْيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ أَشْعَرَهَا وَقَلَّدَهَا أَوْ قَلَّدْتُهَا، ثُمَّ بَعَثَ بِهَا إِلَى البيت وَأَقَامَ بالمدينة، فَمَا حَرُمَ عَلَيْهِ شَيْءٌ كَانَ لَهُ حِلٌّ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے افلح بن حمید نے بیان کیا، ان سے قاسم نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدی کے قلادے خود بٹے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشعار کیا اور ہار پہنایا، یا میں نے ہار پہنایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کے لیے انہیں بھیج دیا اور خود مدینہ میں ٹھہر گئے لیکن کوئی بھی ایسی چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حرام نہیں ہوئی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلال تھی۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 305  
´احرام باندھے اور لبیک کہے بغیر کوئی چیز حرام نہیں ہوتی`
«. . . 308- مالك عن عبد الله بن أبى بكر عن عمرة بنت عبد الرحمن أنها أخبرته أن زياد بن أبى سفيان كتب إلى عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم أن عبد الله بن عباس قال: من أهدى هديا حرم عليه ما حرم على الحاج حتى ينحر هديه، وقد بعثت بهدي فاكتبي إلى بأمرك أو مري صاحب الهدي، قالت عمرة: فقالت عائشة: ليس كما قال ابن عباس، أنا فتلت قلائد هدي رسول الله صلى الله عليه وسلم بيدي ثم قلدها رسول الله صلى الله عليه وسلم بيديه ثم بعث بها مع أبي، فلم يحرم على رسول الله صلى الله عليه وسلم شيء أحله الله له حتى نحر الهدي. . . .»
. . . زیاد بن ابی سفیان نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف لکھ کر بھیجا کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: جو شخص (بیت اللہ کی طرف) قربانی کے جانور روانہ کرے تو اس پر قربانی کرنے تک وہ چیزیں حرام ہو جاتی ہیں جو حاجی پر حرام ہوتی ہیں اور میں نے قربانی کے جانور روانہ کر دئیے ہیں، لٰہذا آپ اپنا فیصلہ میری طرف لکھ کر بھیجیں یا جو شخص قربانی کے جانور لاتا ہے اسے حکم دے دیں۔ عمرہ (بنت عبد الرحٰمن رحمہا اللہ) نے کہا: تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: جس طرح ابن عباس نے کہا ہے اس طرح نہیں ہے۔ میں اپنے ہاتھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے جانوروں کی گردن میں (قربانی کے نشان کے لئے) پٹے تیار کئے تھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خود ڈالا تھا۔ پھر انہیں میرے والد (سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) کے ساتھ (بیت اللہ کر طرف) روانہ کیا تو آپ پر قربانی ذبح ہونے تک اللہ کی حلال کردہ چیزوں میں سے کوئی چیز بھی حرام نہیں ہوئی تھی . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 305]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1700، ومسلم 369/1321، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ مجتہد سے غلطی یا بھول ہو سکتی ہے۔
➋ جواب ہمیشہ دلیل سے دینا چاہئے۔
➌ جو شخص قربانی کے جانور حرم بھیج دے اور اپنے گھر میں مقیم رہے تو اس کے بارے میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: آدمی پر احرام باندھے اور لبیک کہے بغیر چیزیں حرام نہیں ہوتیں۔ [الموطأ 1/341 ح770 وسنده صحيح]
➍ ایک آدمی نے قربانی کے جانور مقرر کر کے بھیج دیئے اور سلے ہوئے کپڑے اُتار دیئے۔ جب سیدنا عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا تو انہوں نے فرمایا: کعبے کے رب کی قسم! یہ بدعت ہے۔ [الموطأ 1/341 ح771 وسنده صحيح]
➎ اہلِ حق کا فقہی مسائل میں آپس میں اختلاف ہو سکتا ہے جو کہ مذموم نہیں ہے۔
➏ صحابۂ کرام ہر وقت سنت پر عمل کرنے میں مستعد رہتے تھے۔
➐ یہ ممکن ہے کہ بڑے سے بڑے عالم کو بعض حدیثیں معلوم نہ ہوں۔
➑ تقلید جائز نہیں ہے بلکہ استطاعت کے مطابق تحقیق ضروری ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 308   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 909  
´ہدی کی بکریوں کو قلادہ (پٹہ) پہنانے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدی کی بکریوں کے سارے قلادے (پٹے) میں ہی بٹتی تھی ۱؎ پھر آپ احرام نہ باندھتے (حلال ہی رہتے تھے)۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 909]
اردو حاشہ:
1؎:
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بکریوں کی تقلید بھی مستحب ہے،
امام مالک اور امام ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ بکریوں کی تقلید مستحب نہیں ان دونوں نے تقلید کو اونٹ گائے کے ساتھ خاص کیا ہے،
یہ حدیث ان دونوں کے خلاف صریح حجت ہے،
ان کا کہنا ہے کہ یہ کمزوری کا باعث ہو گی،
لیکن یہ دلیل انتہائی کمزور ہے اس لیے کہ تقلید سے مقصود پہچان ہے انہیں ایسی چیز کا قلادہ پہنایا جائے جس سے انہیں کمزوری نہ ہو۔
اللہ عزوجل ہم سب کو مذہبی و معنوی تقلید سے محفوظ رکھے،
اللھم آمین۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 909   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1759  
´ہدی بھیج کر خود مقیم رہنے کا بیان۔`
ام المؤمنین (عائشہ) رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدی روانہ کئے تو میں نے اپنے ہاتھ سے اس اون سے ان کے قلادے بٹے جو ہمارے پاس تھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال ہو کر ہم میں صبح کی آپ نے وہ تمام کام کئے جو ایک حلال (غیر مُحرم) آدمی اپنی بیوی سے کرتا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1759]
1759. اردو حاشیہ: در اصل ان احادیث میں اصحاب رائے کے اس قول کا جواب ہے کہ جب انسان ہدی بھیج دےاور اسے قلادہ بھی پہنا دے تواس پر احرام واجب ہوجاتاہے مگر حق یہی ہے جو ذکر ہوا کہ جب تک کوئی شخص عملاً احرام نہ باندھے محرم نہیں ہوتا اور نہ اس طرح احرام ہی واجب ہوتاہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1759   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1699  
1699. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ کی ہدی کے لیے ہار تیار کیے۔ پھر آپ نے ان کا اشعار کیا اور انھیں قلادہ پہنایا۔ پھر آپ نے انھیں بیت اللہ روانہ کیا اور خود مدینہ طیبہ میں ٹھہرے۔ اس عمل سے آپ پر کوئی ایسی چیز حرام نہ ہوئی جو آپ کے لیے حلال تھی، یعنی آپ محرم نہ ہوئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1699]
حدیث حاشیہ:
کوئی شخص اپنے وطن سے کسی کے ہمراہ مکہ شریف قربانی کا جانور بھیج دے تو وہ حلال ہی رہے گا اس پر احرام کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1699   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1699  
1699. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ کی ہدی کے لیے ہار تیار کیے۔ پھر آپ نے ان کا اشعار کیا اور انھیں قلادہ پہنایا۔ پھر آپ نے انھیں بیت اللہ روانہ کیا اور خود مدینہ طیبہ میں ٹھہرے۔ اس عمل سے آپ پر کوئی ایسی چیز حرام نہ ہوئی جو آپ کے لیے حلال تھی، یعنی آپ محرم نہ ہوئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1699]
حدیث حاشیہ:
(1)
کوہان کی دائیں یا بائیں جانب جلد میں چھری لگا کر خون نکالنے کو اشعار کہتے ہیں، اس طرح قربانی کا جانور دوسرے جانوروں سے ممتاز رہتا ہے، جب گم ہو جائے تو پہچانا جاتا ہے۔
تقلید کے معنی جانور کے گلے میں کسی چیز کا لٹکانا ہے تاکہ معلوم ہو جائے کہ یہ قربانی کا جانور ہے۔
بکری چونکہ کمزور ہوتی ہے، اس لیے اس کا اشعار درست نہیں۔
امام ابو حنیفہ ؒ کے علاوہ اشعار کو کسی نے بھی مکروہ نہیں کہا۔
راجح یہ ہے کہ انہوں نے ایسے اشعار کو مکروہ کہا ہے جس سے جانور ہلاکت کے قریب ہو جاتا تھا، یعنی انہوں نے نفس اشعار کو مکروہ نہیں کہا بلکہ اس میں مبالغہ آمیزی کو ناپسند کیا ہے، مبالغے کی نفی سے اصل شے کی نفی نہیں ہوتی۔
ابو سائب کہتے ہیں کہ ہم حضرت وکیع کے پاس تھے کہ کسی آدمی نے ابراہیم نخعی کے حوالے سے اشعار کو مکروہ کہا اور اسے مُثلہ قرار دیا۔
حضرت وکیع اس پر بہت ناراض ہوئے اور فرمانے لگے:
میں تجھے رسول اللہ ﷺ کا عمل بتاتا ہوں اور تو اس کے مقابلے میں ابراہیم نخعی کی بات پیش کرتا ہے، تو اس بات کا حقدار ہے کہ تجھے قید میں رکھا جائے۔
بہرحال اشعار سنت ہے اور اس میں مبالغہ ناپسندیدہ عمل ہے۔
(فتح الباري: 688/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1699