صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ -- کتاب: حج کے مسائل کا بیان
113. بَابُ الْجِلاَلِ لِلْبُدْنِ:
باب: قربانی کے جانوروں کے لیے جھول کا ہونا۔
وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا لَا يَشُقُّ مِنَ الْجِلَالِ إِلَّا مَوْضِعَ السَّنَامِ، وَإِذَا نَحَرَهَا نَزَعَ جِلَالَهَا مَخَافَةَ أَنْ يُفْسِدَهَا الدَّمُ، ثُمَّ يَتَصَدَّقُ بِهَا.
‏‏‏‏ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما صرف کوہان کی جگہ کے جھول کو پھاڑتے اور جب اس کی قربانی کرتے تو اس ڈر سے کہ کہیں اسے خون خراب نہ کر دے جھول اتار دیتے اور پھر اس کو بھی صدقہ کر دیتے۔
حدیث نمبر: 1707
حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَتَصَدَّقَ بِجِلَالِ الْبُدْنِ الَّتِي نَحَرْتُ وَبِجُلُودِهَا".
ہم سے قبیصہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ابن ابی نجیح نے، ان سے مجاہد نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے اور ان سے علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قربانی کے جانوروں کے جھول اور ان کے چمڑے کو صدقہ کرنے کا حکم دیا تھا جن کی قربانی میں نے کر دی تھی۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3099  
´ہدی کے اونٹوں پر جھول ڈالنے کا بیان۔`
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے ہدی کے اونٹوں کی نگرانی کا حکم دیا، اور کہا کہ میں ان کی جھولیں اور ان کی کھالیں (غریبوں اور محتاجوں میں) بانٹ دوں، اور ان میں سے قصاب کو کچھ نہ دوں، آپ نے فرمایا: ہم اسے اجرت اپنے پاس سے دیں گے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3099]
اردو حاشہ:
فوئاد و مسائل:

(1)
جانوروں کوسردی وغیرہ سے بچانے کے لیے ان پر جھول ڈالنی درست ہے۔

(2)
قربانی کے جانوروں کی کھالیں اور جھولیں صدقہ کردینی چاہیئں۔

(3)
قربانی کے جانور کا گوشت قصاب کو اجرت کے طور پر دینا جائز نہیں۔

(4)
قربانی کا جانور قصاب سے اجرت دے کر ذبح کروانا جائز ہےجبکہ خود اپنے ہاتھ سےذبح کرنا افضل ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3099   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1166  
´(احکام) قربانی کا بیان`
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم ارشاد فرمایا کہ میں قربانی کے اونٹوں کی نگرانی و حفاظت کروں۔ یہ حکم دیا کہ میں ان کا گوشت اور چمڑا اور جھول کو مساکین و غرباء پر تقسیم کر دوں اور قصاب کو اس سے کچھ بھی نہ دوں۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1166»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الحج، باب لا يعطي الجزار من الهدي شيئًا، حديث:1716، 1717، ومسلم، الحج، باب الصدقة بلحوم الهدايا، وجلودها وجلالها...، حديث:1317.»
تشریح:
1. اس حدیث میں قربانی کے اونٹوں سے مراد حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قربان کردہ وہ اونٹ ہیں جنھیں حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے لائے تھے۔
ان کی تعداد ایک سو تھی۔
2.اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قربانی کا گوشت‘ اس کا چمڑا اور اس سے متعلق سامان‘ پالان اور رسی وغیرہ سب کچھ خیرات کر دینا چاہیے اور قصاب کو اجرت اس گوشت میں سے نہیں دی جا سکتی۔
اجرت و معاوضہ الگ سے دینا چاہیے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1166   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1707  
1707. حضرت علی ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: مجھے رسول اللہ ﷺ نے یہ حکم دیا تھا کہ جو اونٹ قربانی کے طور پر میں نے ذبح کیے ہیں ان کی جھولیں اور کھالیں صدقہ کردوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1707]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ قربانی کے جانوروں کی ہر چیز حتی کہ جھول تک بھی صدقہ کردی جائے اور قصائی کو ان میں سے اجرت میں کچھ نہ دیا جائے، اجرت علیحدہ دینی چاہئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1707   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1707  
1707. حضرت علی ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: مجھے رسول اللہ ﷺ نے یہ حکم دیا تھا کہ جو اونٹ قربانی کے طور پر میں نے ذبح کیے ہیں ان کی جھولیں اور کھالیں صدقہ کردوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1707]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں اختصار ہے۔
درحقیقت رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر سو اونٹ قربانی کے طور پر ذبح کیے تھے۔
حضرت علی ؓ کو ان کا گوشت، کھالیں اور جھولیں تقسیم کرنے کا حکم دیا۔
(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1718) (2)
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کے جانوروں کو جھول اور قلادے پہنائے جائیں۔
ان سے تو عمل کا اظہار ہوتا ہے جبکہ ہمیں حکم ہے کہ اپنے اعمال لوگوں سے چھپائیں تاکہ ریاکاری نہ ہو جائے؟ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کا جواب دیا ہے کہ حج کے تمام اعمال اظہار پر مبنی ہی، مثلا:
احرام، طواف، وقوف، اسی طرح اشعار و تقلید میں بھی اظہار ہے۔
(فتح الباري: 694/3)
دراصل یہ انسان کی نیت پر موقوف ہے۔
اگر نیت میں نمودونمائش مقصود نہیں تو ان اعمال کے اظہار سے عنداللہ مؤاخذہ نہیں ہو گا، اور اگر نیت میں ریاکاری اور نمودونمائش ہے تو اس کی موجودگی میں کوئی عمل بھی شرف قبولیت سے ہمکنار نہیں ہوتا۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1707