صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ -- کتاب: حج کے مسائل کا بیان
115. بَابُ ذَبْحِ الرَّجُلِ الْبَقَرَ عَنْ نِسَائِهِ مِنْ غَيْرِ أَمْرِهِنَّ:
باب: کسی آدمی کا اپنی بیویوں کی طرف سے ان کی اجازت کے بغیر گائے کی قربانی کرنا۔
حدیث نمبر: 1709
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَتْ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، تَقُولُ:" خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِخَمْسٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْقَعْدَةِ لَا نُرَى إِلَّا الْحَجَّ، فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنْ مَكَّةَ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ إِذَا طَافَ وَسَعَى بَيْنَ الصَّفَا والمروة أَنْ يَحِلَّ، قَالَتْ: فَدُخِلَ عَلَيْنَا يَوْمَ النَّحْرِ بِلَحْمِ بَقَرٍ، فَقُلْتُ: مَا هَذَا؟ قَالَ: نَحَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَزْوَاجِهِ" , قَالَ يَحْيَى: فَذَكَرْتُهُ لِلْقَاسِمِ، فَقَالَ: أَتَتْكَ بِالْحَدِيثِ عَلَى وَجْهِهِ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی، انہیں یحییٰ بن سعید نے، ان سے عمرہ بنت عبدالرحمٰن نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، انہوں نے بتلایا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (حج کے لیے) نکلے تو ذی قعدہ میں سے پانچ دن باقی رہے تھے ہم صرف حج کا ارادہ لے کر نکلے تھے، جب ہم مکہ کے قریب پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جن لوگوں کے ساتھ قربانی نہ ہو وہ جب طواف کر لیں اور صفا و مروہ کی سعی بھی کر لیں تو حلال ہو جائیں گے، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ قربانی کے دن ہمارے گھر گائے کا گوشت لایا گیا تو میں نے کہا کہ یہ کیا ہے؟ (لانے والے نے بتلایا) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے یہ قربانی کی ہے، یحییٰ نے کہا کہ میں نے عمرہ کی یہ حدیث قاسم سے بیان کی انہوں نے کہا عمرہ نے یہ حدیث ٹھیک ٹھیک بیان کیا ہے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 308  
´جس کے پاس قربانی نہ ہو اور وہ حج کے مہینوں میں بیت اللہ پہنچ جائے`
«. . . 497- وبه: أنها سمعت عائشة تقول: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بخمس ليال بقين من ذي القعدة ولا نرى إلا أنه الحج فلما دنونا من مكة أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم من لم يكن معه هدي إذا طاف بالبيت وسعى بين الصفا والمروة أن يحل. قالت: عائشة: فدخل علينا يوم النحر بلحم بقر، فقلت: ما هذا؟ فقالوا: نحر رسول الله صلى الله عليه وسلم عن أزواجه. قال يحيى: فذكرت هذا الحديث للقاسم بن محمد فقال: أتتك بالحديث على وجهه. . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (مدینے سے) نکلے تو ذوالقعدہ کی پانچ راتیں باقی تھیں اور ہمارا صرف حج کا ارادہ تھا پھر جب ہم مکہ کے قریب پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جس کے پاس قربانی کے جانور نہیں ہیں، اگر اس نے بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کر لی ہے تو احرام کھول دے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: پھر قربانی والے دن ہمارے پاس گائے کا گوشت لایا گیا تو میں نے کہا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے قربانی کی ہے یحییٰ (بن سعید الانصاری) نے کہا: پھر میں نے یہ حدیث قاسم بن محمد کے سامنے بیان کی تو انہوں نے فرمایا: عمرہ نے تمہیں یہ حدیث بالکل اصل کے مطابق سنائی ہے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 308]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1709، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ جس شخص کے ساتھ قربانی کے جانور نہ ہوں اور وہ حج کے مہینوں میں حج کی نیت سے مکہ پہنچ جائے تو اگر چاہے کہ عمرہ کر کے احرام کھول دے اور بعد میں حج تمتع کرے تو ایسا کر سکتا ہے۔
➋ گائے کا گوشت حلال ہے اور کسی صحیح حدیث سے یہ ثابت نہیں کہ گائے کا گوشت مضر ہے۔ اس سلسلے میں شیخ البانی رحمہ اللہ نے جن روایات کو صحیح قرار دیا ہے وہ سب کی سب ضعیف ہیں۔
➌ نیز دیکھئے: الموطأ حدیث: 38
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 497   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 293  
´حج کی تینوں قسموں افراد، قران اور تمتع پر عمل کرنا صحیح ہے`
«. . . عن عائشة انها قالت: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فى حجة الوداع فاهللنا بعمرة، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من كان معه هدي فليهلل بالحج مع العمرة ثم لا يحل حتى يحل منهما جميعا . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ہم حجتہ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (حج کرنے کے لئے) نکلے۔ ہم نے عمرہ کی لبیک کہی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس قربانی کے جانور ہوں تو وہ عمرے کے ساتھ حج کی لبیک کہے پھر جب تک ان دونوں (حج و عمرہ) سے فارغ نہ ہو جائے احرام نہ کھولے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 293]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1556، ومسلم 1211/111، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ حج کی تینوں قسموں افراد، قران اور تمتع پر عمل کرنا بالکل صحیح ہے۔ ديكهئے: [التمهيد 205/8]
● صحیح مسلم (1252) کی ایک صحیح حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حج افراد قیامت تک جاری رہے گا۔ نیز دیکھئے: [السنن الكبري للبيهقي 2/5]
◄ لہٰذا حج افراد کو منسوخ کہنا باطل ہے۔

تنبیہ:
صحیح احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حج کی تینوں اقسام میں سے راجح قول کے مطابق حج تمتع سب سے افضل ہے۔
➋ حج قران اور حج افراد میں صرف ایک طواف (بیت اللہ کے سات پھیروں والا طواف) ہے جبکہ حج تمتع کرنے والے کو قربانی کے ساتھ دو طواف کرنے پڑتے ہیں۔ جتنا عمل مسنون زیادہ ہے اتنا ثواب زیادہ ہے۔
➌ حالت حیض میں طواف اور سعی جائز نہیں ہے۔
➍ اس پر اجماع ہے کہ عمرہ کرنے والا پہلے بیت اللہ کا طواف کرے گا اور پھر صفا و مروہ کی سعی کرے گا۔ دیکھئے: [التمهيد216/8] سوائے اس کے کہ وہ عرفات کی رات مکہ پہنچ جائے تو اس صورت میں پہلے عرفات جائے گا تاکہ حج (کا رکن اعظم) رہ نہ جائے۔
➎ حائضہ عورت جس پر عمرہ واجب ہے۔ تنعیم جا کر عمرہ کر سکتی ہے۔
➏ تنعیم مکہ مکرمہ کا ایک مقام ہے جسے آج کل مسجد عائشہ کہا جاتا ہے۔ بعض الناس یہاں سے نفلی عمرے کرتے رہتے ہیں جن کا کوئی ثبوت احادیث صحیحہ اور آثار سلف صالحین سے نہیں ہے۔ نیز دیکھئے: [الموطأ حديث: 39]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 38   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 298  
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد کیا تھا`
«. . . عن عائشة ام المؤمنين: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم افرد الحج . . .»
. . . ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد کیا تھا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 298]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1562، ومسلم 118/1211، وابن ماجه 2965، من حديث مالك به]

تفقه
➊ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس صحیح حدیث سے واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد کیا تھا۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد کی لبیک کہی تھی۔ [صحيح مسلم: 1231]
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج افراد کی لبیک کہی تھی۔ [صحيح مسلم 1213]
دوسری طرف سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرے کی لبیک کہی تھی۔ [صحيح بخاري: 4353، 4354 وصحيح مسلم: 1232]
اس طرح کی روایات دیگر صحابہ سے بھی ہیں اور یہ متواتر ہے۔ ان دونوں روایتوں میں تطبیق یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے حج افراد کی لبیک کہی اور بعد میں حج قران (عمرے اور حج) کی لبیک کہی۔ ہر صحابی نے اپنے اپنے علم کے مطابق روایت بیان کر دی۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: شرح الزرقانی علی موطأ الامام مالک [ج2 ص251]
➋ حج افراد، حج قران اور حج تمتع یہ تینوں قسمیں حج کی ہیں اور قیامت تک ان میں سے ہر قسم پر عمل جائز ہے۔ بعض علماء کا حج افراد کی حدیث کو شاذ یا منسوخ قرار دینا باطل و مردود ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ابن مریم روحاء کی گھاٹی سے حج (افراد) یا عمرہ کرنے (والے حج تمتع) یا دونوں اکٹھے (حج قران) کی لبیک کہتے ہوئے ضرور آئیں گے۔ [صحيح مسلم: 1252، وترقيم دارالسلام: 3030، السنن الكبريٰ للبيهقي 5/2 حاجي كے شب وروز ص82]
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ حج افراد، حج قران اور حج تمتع قیامت تک باقی رہیں گے۔
➌ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جس نے حج افراد کیا تو اچھا ہے اور جس نے تمتع کیا تو اس نے قرآن مجید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت (دونوں) پر عمل کیا۔ [السنن الكبريٰ للبيهقي 5/21 وسنده صحيح، حاجي كے شب وروز ص83]
سیدنا ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنھم نے حج افراد کیا۔ [سنن الترمذي: 82٠ وسنده حسن]

تنبیہ:
دوسرے دلائل کو مدنظر رکھتے ہوئے حج تمتع سب سے افضل ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 88   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2952  
´مہینہ کے آخری دنوں میں سفر کرنا`
«. . . أَنَّهَا سَمِعَتْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، تَقُولُ" خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِخَمْسِ لَيَالٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْقَعْدَةِ، وَلَا نُرَى إِلَّا الْحَجَّ فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنْ مَكَّةَ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ إِذَا طَافَ بِالْبَيْتِ، وَسَعَى بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ أَنْ يَحِلَّ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَدُخِلَ عَلَيْنَا يَوْمَ النَّحْرِ بِلَحْمِ بَقَرٍ، فَقُلْتُ: مَا هَذَا، فَقَالَ: نَحَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَزْوَاجِهِ . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ مدینہ سے (حجۃ الوداع کے لیے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم اس وقت نکلے جب ذی قعدہ کے پانچ دن باقی تھے۔ ہفتہ کے دن ہمارا مقصد حج کے سوا اور کچھ بھی نہ تھا۔ جب ہم مکہ سے قریب ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ جس کے ساتھ قربانی کا جانور نہ ہو جب وہ بیت اللہ کے طواف اور صفا اور مروہ کی سعی سے فارغ ہو جائے تو احرام کھول دے۔ (پھر حج کے لیے بعد میں احرام باندھے) عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ دسویں ذی الحجہ کو ہمارے یہاں گائے کا گوشت آیا، میں نے پوچھا کہ گوشت کیسا ہے؟ تو بتایا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے جو گائے قربانی کی ہے یہ اسی کا گوشت ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ: 2952]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 2952 کا باب: «بَابُ الْخُرُوجِ آخِرَ الشَّهْرِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں مہینے کے آخری میں سفر کرنے کے متعلق باب قائم فرمایا اور جو حدیث پیش فرمائی ہے اس میں یہ الفاظ ہیں:
«خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم لخمس ليال بقين من ذي القعدة.»
ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس وقت نکلے جب ذی القعدہ کے پانچ روز باقی تھے۔
یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت واقع ہو رہی ہے کیونکہ ذی القعدہ کے آخری پانچ روز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کا قصد فرمایا۔ دراصل امام بخاری رحمہ اللہ ان لوگوں کی تردید فرما رہے ہیں جو کہ مہینے کے آخر میں سفر کرنے کو نحوست خیال کرتے ہیں، اس قسم کے مذموم قائدے زمانہ جاہلیت میں لوگوں کے ہوا کرتے تھے، امام بخاری رحمہ اللہ ان کا رد فرما رہے ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«أي ردا على من كره ذالك من طريق الطيرة، وقد نقل ابن بطال أن أهل الجاهلية كانو يتطيرون أوائل الشهور الأعمال، و يكرهون التصرف فى محاق القمر.» [فتح الباري، ج 6، ص: 141]
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ ان کا رد فرما رہے ہیں جو مہینے کے آخری ایام میں سفر کو منحوس خیال کرتے ہیں، اور ابن بطال رحمہ اللہ نے نقل فرمایا کہ اہل جاہلیت یہ خیال کرتے کہ اگر مہینے کے آخر میں آدمی سفر کیلئے روانہ ہوتا ہے تو عمر گھٹ جاتی ہے، اور ہمارا کام گھاٹے میں آ جاتا ہے۔
ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«الرد على من يزعم من القائلين متأثير الكواكب أن الحركة آخر الشهر فى محاق القمر مذمومة» [المستواري، ص: 161]
امام بخاری رحمہ اللہ کا یہاں ان لوگوں کا رد مقصود ہے جو مہینے کے آخر میں سفر کرنے کو مذموم قرار دیتے ہیں ستاروں کی حرکت و تاثیر کی وجہ سے۔
(قلت) میں سمجھتا ہوں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کی بھی تردید فرمائی ہے جس کا ذکر امام حسان الدین الہندی (المتوفی 975) نے بھی اپنی کتاب «كنز العمال» میں ذکر فرمایا ہے۔ «اقترب آخر أربعا و فى الشهر يوم نحس و مستمر.» [كنز العمال، ج 2، ص: 11، رقم: 931]
یعنی مہینے کے آخری چار دن منحوس ہوا کرتے ہیں۔ (جن کا یہ عقیدہ ہے) امام بخاری رحمہ اللہ ان لوگوں کا رد فرما رہے ہیں۔
ایک اشکال کا جواب:
صحیح بخاری کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر پر نکلے اس وقت ذیقعدہ کے پانچ دن رہتے تھے۔ پچیسویں تاریخ کو مدینے سے نکلے اور ذی الحجہ کو چوتھی تاریخ کو مکہ پہنچے۔
اب جو یہاں تعارض اور اشکال کی صورت پیدا ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر حج کے لئے ہفتہ کے دن نکلے تھے تو ذیقعدہ کے چار دن باقی بچتے تھے، اس لئے کہ ذی الحجہ کی یکم تاریخ جمعرات کے دن تھی اور وہ وقف عرفہ جمعہ کا روز تھا، اور اگر سفر کی ابتداء جمعرات کو ہوتی ہے تو ذیقعدہ کے چھ روز باقی بچے تھے، سفر کی ابتداء کیلئے جمعہ کا دن تو قطعا نہیں بنتا اسی لئے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں: «صلى الظهر بالمدينة أربعا» اور ظاہر ہے ظہر کی نماز جمعہ کے دن نہیں پڑھی جاتی تو «لخمس بقين» کس طرح صحیح ہو سکتا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس اشکال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
«و أجيب بأن الخروج كان يوم السبت، و انما قالت عائشة: لخمس بقين بناء على العدد، لأن ذوالقعدة كان أوله الأربعا فاتفق أن جاء ناقصا . . .» [فتح الباري، ج 6، ص: 142]
یعنی یوم الخروج ہفتہ کے دن کو بھی سفر کے ایام میں شمار کیا جائے تو بھی معنی ٹھیک ہو سکتے ہیں اگرچہ نکلتے نکلتے دوپہر ہو چکی تھی لیکن تیاری تو پہلے ہی مکمل ہو چکی تھی، گویا انہوں نے جب تیاری مکمل کر لی تو ہفتہ کی شب کو انہوں نے ایام سفر کو شمار کیا تو یہ پانچ دن ہو گئے۔ بالکل اسی طرح سے تطبیق بدرالدین بن جماعۃ رحمہ اللہ نے بھی دی ہے۔ دیکھئے: [مناسبات تراجم البخاري، ص: 87-88]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 419   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2964  
´حج افراد کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد کیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2964]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حج کی تین قسمیں ہیں ان میں سے جس طریقے سے بھی حج ادا کیا جائے درست ہے۔

(ا)
حج افراد:
اس میں حج کی نیت سے احرام باندھا جاتا ہے۔
مکہ شریف پہنچ کر جو طواف کرتے ہیں وہ طواف قدوم کہلاتا ہے پھر احرام کھولے بغیر مکہ میں رہتے ہیں۔
یوم الترویہ (8 ذی الحجہ)
کو اسی احرام کے ساتھ منی کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں۔
وہاں ظہر سے لیکر اگلے دن (9 ذوالحجہ)
کی فجر تک پانچ نمازیں ادا کرتے ہیں۔
سورج نکلنے کے بعد عرفات کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔
وہاں ظہر کے وقت ظہر اور عصر کی نمازیں جمع اور قصر کرکے ادا کرتے ہیں پھر سورج غروب ہونے تک ذکر الہی اور دعا ومناجات میں مشغول رہتے ہیں۔
یہ وقوف (عرفات میں ٹھرنا)
حج کا سب سے اہم رکن ہے۔
سورج غروب ہونے پر مزدلفہ کی طرف روانہ ہوتے ہیں وہاں پہنچ کر مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع اور قصر کرکے ادا کرتے ہیں۔
رات مزدلفہ میں گزار کر صبح (دس ذوالحجہ کو)
فجر کی نماز ادا کرکے وہاں ٹھرے رہتے ہیں۔
کافی روشنی ہوجانے پر سورج نکلنے سے پہلے منی کی طرف چلتے ہیں۔
منی پہنچ کر سورج نکلنے کے بعد بڑے جمرے کو سات کنکریاں مارتے ہیں قربانی کرتے ہیں اور سر کے بال اتروا کر احرام کھول دیتے ہیں اور اسی دن سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے طواف کعبہ کرتے اور رات منی میں واپس آ کر گزارتے ہیں۔
گیارہ بارہ اور تیرہ ذوالحجہ کو منی میں ٹھرتے ہیں۔
ان تین دنوں میں روزانہ زوال کے بعد تینوں جمرات کو سات سات کنکریاں مارتے ہیں۔
اگر کوئی شخص گیارہ اور بارہ تاریخ کو کنکریاں مار کر واپس آنا چاہے تو آ سکتا ہے۔
حج افراد میں قربانی کرنا ضروری نہیں ثواب کا باعث ہے۔

(ب)
حج قران کا طریقہ یہ ہے کہ میقات سے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھتے ہیں۔
مکہ پہنچ کر طواف اور سعی کرتے ہیں۔
یہ عمرہ بن جاتا ہے لیکن اس کے بعد بال اتروا کر احرام نہیں کھولتے بلکہ احرام میں ہی رہتے ہیں۔
اس طرح آٹھ ذوالحجہ کو منی کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں اور وہ تمام کام کرتےہیں جو حض افراد میں بیان ہوئے۔
حج قران کرنے والے میقات سے یا وطن سے قربانی کے جانور ساتھ لیکرآتے ہیں۔

(ج)
حج تمتع کا طریقہ یہ ہے کہ میقات سے صرف عمرے کا احرام باندھتے ہیں مکہ شریف پہنچ کر طواف اور سعی کرکے بال چھوٹے کرا کے احرام کھول دیتے ہیں پھر آٹھ ذوالحجہ کو مکہ ہی سے احرام باندھ کر حج کےتمام ارکان ادا کرتےہیں۔
اور دس ذی الحجہ کو قربانی دیتے ہیں۔
جو قربانی کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ دس روزے رکھ لے جن میں سے تین روزے ایام حج میں رکھنا ضروری ہیں۔

(2)
مدینہ منورہ سے روانہ ہوتے وقت رسول اللہﷺ کا ارادہ حج مفرد کا تھا۔
بعد میں رسول اللہﷺ نے ارادہ بدل دیا۔
ام المومنین رضی اللہ عنہ کے ارشاد کا یہی مطلب ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2964   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 592  
´احرام کی اقسام اور صفت کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع کے سال نکلے۔ ہم میں سے بعض وہ تھے جنہوں نے عمرہ کے لیے تلبیہ کہا اور ہم میں سے کچھ وہ تھے جنہوں نے حج اور عمرہ کے لیے تلبیہ کہا اور ہم میں سے بعض وہ تھے جنہوں حج کے لیے لبیک پکارا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف حج کے لیے تلبیہ پکارا۔ پھر جنہوں عمرہ کے لیے لبیک کہا تھا وہ حلال ہو گئے اور جنہوں نے حج کے لیے لبیک کہا تھا یا حج اور عمرہ کو جمع کیا تھا وہ حلال نہ ہوئے یہاں تک کہ قربانی کا دن آیا۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 592]
592 لغوی تشریح:
«بَابُ وُجْوهِ الْاِحْرَامِ وَصِفَتِهِ» «الوجوه»، «وجه» کی جمع ہے۔ اور اس سے اقسام احرام مراد ہیں۔ اور وہ تین ہیں، یعنی صرف حج یا محض عمرہ یا دونوں کا احرام باندھنا۔ «صفته» سے مراد محرم کی وہ کیفیت ہے جسے وہ حالت احرام میں اختیار کرتا ہے۔
«خَرَجْنَا» ہم نکلے۔ حج کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں یہ نکلنا ہفتے کے روز نماز ظہر کے بعد تھا جبکہ ذی القعدہ کے پانچ دن ابھی باقی تھے۔
«عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ» حجتہ الوداع، دس ہجری میں ہوا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد اس کے علاوہ اور کوئی حج نہیں کیا۔ اور اسے حجۃ الوداع اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو الوداع کہا تھا۔
«أهَلَّ بِعُمْرَةِ» یعنی صرف عمرے کا احرام باندھا، ایسے شخص کو «متمتع» کہتے ہیں۔
«أهَلَّ بِحَجَّ وَ عُمْرَةِ» حج و عمرہ دونوں کا احرام باندھا۔ ایسے شخص کو «قارن» کہتے ہیں۔ اور جس نے صرف حج کے لیے احرام باندھا ہو اسے «مفرد» کہتے ہیں۔
«اَلْاِهْلَال»، آواز بلند کرنے کو کہتے ہیں اور اس سے مراد احرام باندھنے کے وقت بلند آواز سے تلبیہ کہنا ہے۔
«فَحَلَّ» یعنی وہ حلال ہو گیا۔ اور یہ تب ہوتا ہے جب بیت اللہ کے طواف اور صفا و مروہ کے مابین سعی کرنے کے بعد سر کے بال منڈوائے جاتے ہیں یا کٹوائے جاتے ہیں اور احرام کھول دیا جاتا ہے۔
«يَوْمُ النَّحْرِ» «نحر»، یعنی قربانی کا دن اور وہ دس ذوالحجہ ہوتا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تنہا حج کا احرام باندھا تھا، یعنی حج مفرد کیا تھا۔ لیکن دوسرے بہت سے دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ قارن تھے اور حج و عمرے کا اکٹھا احرام باندھا تھا۔ اور یہی بات صحیح ہے تاہم اقسام حج میں سے کون سی قسم افضل ہے اس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ اور جو شخص مفرد ہوتا ہے وہ صرف قربانی کے دن ہی حلال ہوتا ہے، پھر یہ حدیث صحیح بخاری و مسلم کی ان روایات کے بھی مخالف ہے جن میں ہے کہ آپ نے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جن کے پاس ہدی، یعنی قربانی نہ تھی، انہیں فرمایا تھا کہ تم حج کو عمرہ بنا لو۔ عمرے کو مکمل کر کے حج کا احرام مکہ سے باندھ لو، اسی لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت دراصل صرف ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے متعلق ہے جن کے پاس قربانی تھی۔

فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حج کی تین قسمیں ہیں، حج قران، حج تمتع، اور حج افراد۔ ان تینوں میں سے افضل کون سا حج ہے؟ اس کی بابت اختلاف ہے، بعض حج قران کو افضل دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہی حج پسند کیا۔ اس میں مشقت بھی زیادہ اٹھانی پڑتی ہے۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں اس پر نفیس بحث کی ہے۔ بعض حج تمتع کو افضل کہتے ہیں کہ اس میں سہولت ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرحلے پر اس کی خواہش کا اظہار فرمایا تھا۔ اور بعض حضرات حج افراد کو افضل قرار دیتے ہیں مگر دلائل کے اعتبار سے راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ حج تمتع ہی افضل ہے۔ «والله اعلم»
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 592   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 820  
´حج افراد کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد ۱؎ کیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 820]
اردو حاشہ:
" 1؎ حج کی تین قسمیں ہیں:
افراد،
قِران اورتمتع،
حج افرادیہ ہے کہ حج کے مہینوں میں صرف حج کی نیت سے احرام باندھے،
اور حج قِران یہ ہے کہ حج اورعمرہ دونوں کی ایک ساتھ نیت کرے،
اورقربانی کا جانورساتھ،
جب کہ حج تمتع یہ ہے کہ حج کے مہینے میں میقات سے صرف عمرے کی نیت کرے پھرمکہ میں جاکرعمرہ کی ادائیگی کے بعداحرام کھول دے اورپھرآٹھویں تاریخ کومکہ مکرمہ ہی سے نئے سرے سے احرام باندھے۔
اب رہی یہ بات کہ آپ ﷺ نے کون سا حج کیا تھا؟توصحیح بات یہ ہے کہ آپ نے قِران کیاتھا،
تفصیل کے لیے حدیث رقم 822 کا حاشہ دیکھیں۔
نوٹ:

(نبی اکرمﷺ کا حج،
حج قران تھا،
اس لیے صحت سند کے باوجود متن شاذ ہے)

"
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 820   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1777  
´حج افراد کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد کیا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1777]
1777. اردو حاشیہ:
➊ حج کے لیے احرم اورنیت کے تین انداز مشروع ہیں:ایک یہ کہ انسان احرام باندھتے ہوئے صرف اور صرف حج کی نیت کرے۔ اس بصورت میں انسان اعمال حج مکمل ہونے تک احرام ہی میں رہتا ہے۔اسے حج افراد (ہمزہ کے کسرہ کے ساتھ) کہتے ہیں یعنی مفرد حج۔دوسری صورت یہ ہے کہ حج اور عمرہ کی اکٹھی نیت ہو۔ اس صورت میں حاجی پہلے عمر ہ کرتاہے اس کے بعد احرام کی حالت میں رہتا ہے یہاں تک کہ حج کے اعمال پورے کر لے۔ اس کو حج قران (قاف کی کسرہ کے ساتھ) کہتے ہیں یعنی حج اور عمرے کو ملا کر ادا کیا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ حاجی پہلے عمرہ کی نیت سے احرام باندھے۔مکہ پہنچ کر عمرہ کےاعمال مکمل کرکے حلال ہوجائے اور پھر 8ذوالحجہ کو دوبارہ حج کے لیے احرام باندھے اور حج کے اعمال پورے کرے۔ اس نوعیت کو حج تمتع کہتے ہیں یعنی ایک ہی سفر میں حج کے ساتھ عمرے کا فائدہ بھی حاصل کر لیا۔سب سے افضل حج تمتع ہی ہے۔اگر قربانی ساتھ لے کر جائے تو قران ہو گا۔ او رحج افراد بھی ہر طرح سے جائز ہے۔(قربانی سمیت یا قربانی کے بغیر)رسول اللہﷺ کا حج قران تھا جبکہ صحابہ میں افراج والے بھی تھے اور تمتع والے بھی۔
➋ اس معنی کی احادیث میں نبی ﷺ کے ابتدائے عمل کا بیان ہے۔ قران کی نیت آپ نے بعد میں فرمائی تھی۔کچھ محدثین اس طرح کہتے ہیں کہ آپ شروع ہی سے قارن تھے۔مگر چونکہ «قارن» ‏‏‏‏ کو اجازت ہوتی ہے کہ کسی وقت «لبیک بحجة» کسی وقت «لبیک تعمرۃ» ‏‏‏‏ اور کسی وقت «لبیک بحجة و عمرة» ‏‏‏‏ کہے اس لیے صحابہ کرام نے نبیﷺ کی زبان سے جو سنا بیان کیا۔ اس میں تعارض والی کوئی بات نہیں۔(مرعاۃ المفاتیح –شرح حدیث:2569]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1777   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1709  
1709. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم پچیس ذوالقعدہ کو رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ مدینہ طیبہ سے روانہ ہوئے۔ ہمارا صرف حج کرنے کا ارادہ تھا۔ جب ہم مکہ مکرمہ کے قریب ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا جس کے ساتھ قربانی نہیں ہے وہ جب بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کر چکے تو احرام کھول دے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ قربانی کے دن ہمارے سامنے گائے کا گوشت لایا گیا تو میں نے پوچھا: یہ گوشت کیسا ہے؟لانے والے نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کی طرف سے قربانی کی ہے۔ راوی حدیث یحییٰ بن سعید نے اس حدیث کا ذکر قاسم سے کیا تو اس نے کہا: عمرہ نے یہ حدیث ٹھیک ٹھیک بیان کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1709]
حدیث حاشیہ:
یہاں یہ اعتراض ہوا ہے کہ ترجمہ باب تو گائے کا ذبح کرنا مذکور ہے اور حدیث میں نحر کا لفظ ہے تو حدیث باب سے مطابق نہیں ہوئی۔
اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث میں نحر سے ذبح مراد ہے چنانچہ اس حدیث کے دوسرے طریق میں جو آگے مذکور ہوگا ذبح کا لفظ ہے اور گائے کا نحر کرنا بھی جائز ہے مگر ذبح کرنا علماءنے بہتر سمجھا ہے اور قرآن شریف میں بھی ﴿أَن تَذْبَحُوا بَقَرَةً﴾ (البقرة: 67)
وارد ہے۔
(وحیدی)
حافظ ابن حجر نے متعدد روایات نقل کی ہیں جن سے ثابت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے حجۃ الوداع میں اپنی تمام ازواج مطہرات کی طرف سے گائے کی قربانی فرمائی تھی، گائے میں سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں جیسا کہ مسلمہ ہے، حج کے موقع پر تو یہ ہر مسلمان کرسکتا ہے مگر عید الاضحی پر یہاں اپنا ہاں کے ملکی قانون (بھارتی قانون)
کی بنا پر بہتر یہی ہے کہ صرف بکرے یا دنبہ کی قربانی کی جائے اور گائے کی قربانی نہ کی جائے جس سے یہاں بہت سے مفاسد کا خطرہ ہے ﴿لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾ قرآنی اصول ہے، حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
أما التعبير بالذبح مع أن حديث الباب بلفظ النحر فإشارة إلى ما ورد في بعض طرقه بلفظ الذبح وسيأتي بعد سبعة أبواب من طريق سليمان بن بلال عن يحيى بن سعيد ونحر البقر جائز عند العلماء إلا أن الذبح مستحب عندهم لقوله تعالى إن الله يأمركم أن تذبحوا بقرة وخالف الحسن بن صالح فاستحب نحرها وأما قوله من غير أمرهن فأخذه من استفهام عائشة عن اللحم لما دخل به عليها ولو كان ذبحه بعلمها لم تحتج إلى الاستفهام لكن ليس ذلك دافعا للاحتمال فيجوز أن يكون علمها بذلك تقدم بأن يكون استأذنهن في ذلك لكن لما أدخل اللحم عليها احتمل عندها أن يكون هو الذي وقع الاستئذان فيه وأن يكون غير ذلك فاستفهمت عنه لذلك۔
(فتح)
یعنی حدیث الباب میں لفظ نحر کو ذبح سے تعبیر کرنا حدیث کے بعض طرق کی طرف اشارہ کرنا ہے جس میں بجائے نحر کے لفظ ذبح ہی وارد ہوا ہے جیسا کہ عنقریب وہ حدیث آئے گی۔
گائے کا نحر کرنا بھی علماءکے نزدیک جائز ہے مگر مستحب ذبح کرنا ہے کیوں کہ بمطابق آیت قرآنی بے شک اللہ تمہیں گائے کے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے یہاں لفظ ذبح گائے کے لیے استعمال ہوا ہے، حسن بن صالح نے نحر کو مستحب قرار دیا ہے اور باب میں لفظ ''من غیر أمرهن'' حضرت عائشہ ؓ کے استفہام سے لیا گیا ہے کہ جب وہ گوشت آیا تو انہوں نے پوچھا کہ یہ کیسا گوشت ہے اگر ان کے علم سے ذبح ہوتا تو استفہام کی حاجت نہ ہوتی، لیکن اس توجیہ سے احتمال دفع نہیں ہوتا، پس ممکن ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کو پہلے ہی اس کا علم ہو جب کہ ان سے اجازت لے کر ہی یہ قربانی ان کی طرف سے کی گئی ہوگی۔
اس وقت حضرت عائشہ ؓ کو خیال ہوا کہ یہ وہی اجازت والی قربانی کا گوشت ہے یا اس کے سوا اور کوئی ہے اسی لیے انہوں نے دریافت فرمایا، اس توجیہ سے یہ اعتراض بھی دفع ہو گیا کہ جب بغیر اجازت کے قربانی جائزنہیں جن کی طرف سے کی جارہی ہے تو یہ قربانی ازواج النبی ﷺ کی طرف سے کیوں کر جائز ہوگی۔
پس ان کی اجازت ہی سے کی گئی مگر گوشت آتے وقت انہوں نے تحقیق کے لیے دریافت کیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1709   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1709  
1709. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم پچیس ذوالقعدہ کو رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ مدینہ طیبہ سے روانہ ہوئے۔ ہمارا صرف حج کرنے کا ارادہ تھا۔ جب ہم مکہ مکرمہ کے قریب ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا جس کے ساتھ قربانی نہیں ہے وہ جب بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کر چکے تو احرام کھول دے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ قربانی کے دن ہمارے سامنے گائے کا گوشت لایا گیا تو میں نے پوچھا: یہ گوشت کیسا ہے؟لانے والے نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کی طرف سے قربانی کی ہے۔ راوی حدیث یحییٰ بن سعید نے اس حدیث کا ذکر قاسم سے کیا تو اس نے کہا: عمرہ نے یہ حدیث ٹھیک ٹھیک بیان کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1709]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کے استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کے پاس جب گائے کا گوشت لایا گیا تو انہوں نے اس کے متعلق پوچھا۔
اگر انہوں نے اجازت دی ہوتی تو پوچھنے کی ضرورت نہ پڑتی، البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پہلے ازواج مطہرات سے اس کی اجازت لی ہو لیکن جب گوشت سامنے آیا تو سوال کیا کہ آیا یہ وہی گوشت ہے جس کی ہم نے اجازت دی تھی یا کوئی دوسرا ہے، البتہ یہ تاویل امام بخاری کے مقصد کے خلاف ہے اور حدیث کا سیاق بھی اسے قبول نہیں کرتا۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص دوسرے کی طرف سے اس کی اجازت یا اس کے علم میں لائے بغیر کوئی کارخیر سرانجام دیتا ہے تو اسے ثواب پہنچتا ہے، نیز اس میں گائے وغیرہ کی قربانی میں شراکت کا ثبوت بھی ہے۔
(3)
اس حدیث کی بنا پر بعض علماء کے نزدیک گائے کو نحر کرنا بھی جائز ہے لیکن ذبح کرنا مستحب ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تَذْبَحُوا بَقَرَةً﴾ بےشک اللہ تعالیٰ تمہیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے۔
(البقرة: 67: 2، و فتح الباري: 695/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1709