سنن ابي داود
كِتَاب الْعِتْق -- کتاب: غلاموں کی آزادی سے متعلق احکام و مسائل
2. باب فِي بَيْعِ الْمُكَاتَبِ إِذَا فُسِخَتِ الْكِتَابَةُ
باب: عقد کتابت فسخ ہو جانے پر مکاتب غلام کو بیچنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3931
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى أَبُو الْأَصْبَغِ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ، عَنْ ابْنِ إِسْحَاق، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" وَقَعَتْ جُوَيْرِيَةُ بِنْتُ الْحَارِثِ بْنِ الْمُصْطَلِقِ فِي سَهْمِ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ أَوِ ابْنِ عَمٍّ لَهُ فَكَاتَبَتْ عَلَى نَفْسِهَا وَكَانَتِ امْرَأَةً مَلَّاحَةً تَأْخُذُهَا الْعَيْنُ، قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: فَجَاءَتْ تَسْأَلُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي كِتَابَتِهَا فَلَمَّا قَامَتْ عَلَى الْبَابِ، فَرَأَيْتُهَا كَرِهْتُ مَكَانَهَا، وَعَرَفْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَيَرَى مِنْهَا مِثْلَ الَّذِي رَأَيْتُ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَا جُوَيْرِيَةُ بِنْتُ الْحَارِثِ وَإِنَّمَا كَانَ مِنْ أَمْرِي مَا لَا يَخْفَى عَلَيْكَ وَإِنِّي وَقَعْتُ فِي سَهْمِ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ وَإِنِّي كَاتَبْتُ عَلَى نَفْسِي، فَجِئْتُكَ أَسْأَلُكَ فِي كِتَابَتِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَهَلْ لَكِ إِلَى مَا هُوَ خَيْرٌ مِنْهُ؟، قَالَتْ: وَمَا هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: أُؤَدِّي عَنْكِ كِتَابَتَكِ وَأَتَزَوَّجُكِ، قَالَتْ: قَدْ فَعَلْتُ، قَالَتْ: فَتَسَامَعَ تَعْنِي النَّاسَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ تَزَوَّجَ جُوَيْرِيَةَ، فَأَرْسَلُوا مَا فِي أَيْدِيهِمْ مِنَ السَّبْيِ، فَأَعْتَقُوهُمْ وَقَالُوا: أَصْهَارُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا رَأَيْنَا امْرَأَةً كَانَتْ أَعْظَمَ بَرَكَةً عَلَى قَوْمِهَا مِنْهَا أُعْتِقَ فِي سَبَبِهَا مِائَةُ أَهْلِ بَيْتٍ مِنْ بَنِي الْمُصْطَلِقِ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا حُجَّةٌ فِي أَنَّ الْوَلِيَّ هُوَ يُزَوِّجُ نَفْسَهُ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ام المؤمنین جویریہ بنت حارث بن مصطلق رضی اللہ عنہا ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ یا ان کے چچا زاد بھائی کے حصہ میں آئیں تو جویریہ نے ان سے مکاتبت کر لی، اور وہ ایک خوبصورت عورت تھیں جسے ہر شخص دیکھنے لگتا تھا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے بدل کتابت میں تعاون مانگنے کے لیے آئیں، جب وہ دروازہ پر آ کر کھڑی ہوئیں تو میری نگاہ ان پر پڑی مجھے ان کا آنا اچھا نہ لگا اور میں نے اپنے دل میں کہا کہ عنقریب آپ بھی ان کی وہی ملاحت دیکھیں گے جو میں نے دیکھی ہے، اتنے میں وہ بولیں: اللہ کے رسول! میں جویریہ بنت حارث ہوں، میرا جو حال تھا وہ آپ سے پوشیدہ نہیں ۱؎ ثابت بن قیس کے حصہ میں گئی ہوں، میں نے ان سے مکاتبت کر لی ہے، اور آپ کے پاس اپنے بدل کتابت میں تعاون مانگنے آئی ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس سے بہتر کی رغبت رکھتی ہو؟ وہ بولیں: وہ کیا ہے؟ اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہارا بدل کتابت ادا کر دیتا ہوں اور تم سے شادی کر لیتا ہوں وہ بولیں: میں کر چکی (یعنی مجھے یہ بخوشی منظور ہے)۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: پھر جب لوگوں نے ایک دوسرے سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جویریہ سے شادی کر لی ہے تو بنی مصطلق کے جتنے قیدی ان کے ہاتھوں میں تھے سب کو چھوڑ دیا انہیں آزاد کر دیا، اور کہنے لگے کہ یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سسرال والے ہیں، ہم نے کوئی عورت اتنی برکت والی نہیں دیکھی جس کی وجہ سے اس کی قوم کو اتنا زبردست فائدہ ہوا ہو، ان کی وجہ سے بنی مصطلق کے سو قیدی آزاد ہوئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث دلیل ہے اس بات کی کہ ولی خود نکاح کر سکتا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 16386)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/277، 6/277) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت: وضاحت ۱؎: یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہے کہ میں ایک رئیس کی صاحبزادی ہوں۔

قال الشيخ الألباني: حسن
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3931  
´عقد کتابت فسخ ہو جانے پر مکاتب غلام کو بیچنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ام المؤمنین جویریہ بنت حارث بن مصطلق رضی اللہ عنہا ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ یا ان کے چچا زاد بھائی کے حصہ میں آئیں تو جویریہ نے ان سے مکاتبت کر لی، اور وہ ایک خوبصورت عورت تھیں جسے ہر شخص دیکھنے لگتا تھا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے بدل کتابت میں تعاون مانگنے کے لیے آئیں، جب وہ دروازہ پر آ کر کھڑی ہوئیں تو میری نگاہ ان پر پڑی مجھے ان کا آنا اچھا نہ لگا اور میں نے اپنے دل میں کہا کہ عنقریب آپ بھی ان کی وہی ملاحت دیکھیں گے جو میں نے دیکھی ہے، اتنے میں وہ بولیں: اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب العتق /حدیث: 3931]
فوائد ومسائل:
(1) غزہ بنی مطلق پانچ یا چھ ہجری میں ہوا تھا۔

(2) رسول اللہ کی شادیوں کی ایک حکمت یہ بھی رہی کہ اس طرح آپ ان قبائل کو اپنا حلیف اور قریبی بنا لیتے تھے اور پھر ان کی دشمنی الفت میں بدل جاتی تھی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3931