صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ -- کتاب: حج کے مسائل کا بیان
120. بَابُ لاَ يُعْطَى الْجَزَّارُ مِنَ الْهَدْيِ شَيْئًا:
باب: قصاب کو بطور مزدوری اس قربانی کے جانوروں میں سے کچھ نہ دیا جائے۔
حدیث نمبر: 1716
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" بَعَثَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُمْتُ عَلَى الْبُدْنِ، فَأَمَرَنِي فَقَسَمْتُ لُحُومَهَا، ثُمَّ أَمَرَنِي فَقَسَمْتُ جِلَالَهَا وَجُلُودَهَا" , قَالَ سُفْيَانُ:وَحَدَّثَنِي عَبْدُ الْكَرِيمِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَمَرَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَقُومَ عَلَى الْبُدْنِ، وَلَا أُعْطِيَ عَلَيْهَا شَيْئًا فِي جِزَارَتِهَا.
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، کہا مجھ کو ابن ابی نجیح نے خبر دی، انہیں مجاہد نے، انہیں عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے اور ان سے علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (قربانی کے اونٹوں کی دیکھ بھال کے لیے) بھیجا۔ اس لیے میں نے ان کی دیکھ بھال کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا تو میں نے ان کے گوشت تقسیم کئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا تو میں نے ان کے جھول اور چمڑے بھی تقسیم کر دئیے۔ سفیان نے کہا کہ مجھ سے عبدالکریم نے بیان کیا، ان سے مجاہد نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے اور ان سے علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ میں قربانی کے اونٹوں کی دیکھ بھال کروں اور ان میں سے کوئی چیز قصائی کی مزدوری میں نہ دوں۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3099  
´ہدی کے اونٹوں پر جھول ڈالنے کا بیان۔`
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے ہدی کے اونٹوں کی نگرانی کا حکم دیا، اور کہا کہ میں ان کی جھولیں اور ان کی کھالیں (غریبوں اور محتاجوں میں) بانٹ دوں، اور ان میں سے قصاب کو کچھ نہ دوں، آپ نے فرمایا: ہم اسے اجرت اپنے پاس سے دیں گے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3099]
اردو حاشہ:
فوئاد و مسائل:

(1)
جانوروں کوسردی وغیرہ سے بچانے کے لیے ان پر جھول ڈالنی درست ہے۔

(2)
قربانی کے جانوروں کی کھالیں اور جھولیں صدقہ کردینی چاہیئں۔

(3)
قربانی کے جانور کا گوشت قصاب کو اجرت کے طور پر دینا جائز نہیں۔

(4)
قربانی کا جانور قصاب سے اجرت دے کر ذبح کروانا جائز ہےجبکہ خود اپنے ہاتھ سےذبح کرنا افضل ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3099   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1166  
´(احکام) قربانی کا بیان`
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم ارشاد فرمایا کہ میں قربانی کے اونٹوں کی نگرانی و حفاظت کروں۔ یہ حکم دیا کہ میں ان کا گوشت اور چمڑا اور جھول کو مساکین و غرباء پر تقسیم کر دوں اور قصاب کو اس سے کچھ بھی نہ دوں۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1166»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الحج، باب لا يعطي الجزار من الهدي شيئًا، حديث:1716، 1717، ومسلم، الحج، باب الصدقة بلحوم الهدايا، وجلودها وجلالها...، حديث:1317.»
تشریح:
1. اس حدیث میں قربانی کے اونٹوں سے مراد حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قربان کردہ وہ اونٹ ہیں جنھیں حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے لائے تھے۔
ان کی تعداد ایک سو تھی۔
2.اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قربانی کا گوشت‘ اس کا چمڑا اور اس سے متعلق سامان‘ پالان اور رسی وغیرہ سب کچھ خیرات کر دینا چاہیے اور قصاب کو اجرت اس گوشت میں سے نہیں دی جا سکتی۔
اجرت و معاوضہ الگ سے دینا چاہیے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1166   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1716  
1716. حضرت علی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے مجھےاونٹوں کی نگہداشت کے لیے روانہ کیا۔ جب میں گیا تو مجھے حکم دیا کہ میں ان کا گوشت تقسیم کروں، چنانچہ میں نے تقسیم کردیا، پھر حکم دیا تو میں نے ان کی جھولیں اور کھالیں بھی خیرات کردیں۔ حضرت علی ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: مجھےنبی ﷺ نے حکم دیا کہ میں قربانی کے اونٹوں کی نگرانی کروں اور قصاب کو ان کی کوئی چیز بطور اجرت نہ دوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1716]
حدیث حاشیہ:
جیسے بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ قصائی کی اجرت میں کھال یا اوجھڑی یا سری پائے حوالہ کردیتے ہیں، بلکہ اجرت اپنے پاس سے دینی چاہئے البتہ اگر قصائی کو للّٰہ کوئی چیز قربانی میں سے دیں تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔
(وحیدی)
صحیح مسلم میں حدیث جابر میں ہے کہ اس دن رسول کریم ﷺ نے تریسٹھ اونٹ نحر فرمائے پھر باقی پر حضرت علی ؓ کو مامور فرمادیا تھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1716   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1716  
1716. حضرت علی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے مجھےاونٹوں کی نگہداشت کے لیے روانہ کیا۔ جب میں گیا تو مجھے حکم دیا کہ میں ان کا گوشت تقسیم کروں، چنانچہ میں نے تقسیم کردیا، پھر حکم دیا تو میں نے ان کی جھولیں اور کھالیں بھی خیرات کردیں۔ حضرت علی ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: مجھےنبی ﷺ نے حکم دیا کہ میں قربانی کے اونٹوں کی نگرانی کروں اور قصاب کو ان کی کوئی چیز بطور اجرت نہ دوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1716]
حدیث حاشیہ:
(1)
جزار اس مزدوری کو کہتے ہیں جو قصاب کو اونٹ ذبح کرنے، کھال اتارنے اور اس کا گوشت بنانے کے عوض دی جاتی ہے۔
چونکہ عرب میں اونٹ کی سری اور پائے مزدوری میں دینے کا رواج تھا اور یہ دونوں قربانی کا حصہ ہیں جو محتاج لوگوں کو فی سبیل اللہ دینے چاہئیں، اس لیے اونٹ کے سری پائے یا کھال بطور مزدوری دینا منع ہے۔
(2)
پہلی حدیث میں قربانی کی جھولیں اور کھال تک خیرات کرنے کا بیان ہے۔
دوسری حدیث میں صراحت کے ساتھ قربانی کا کوئی حصہ قصاب کو بطور اجرت دینے کی ممانعت ہے بلکہ اسے معاوضہ اپنی طرف سے دینا چاہیے، تاہم خیرات کے طور پر گوشت وغیرہ قصاب کو دینے میں کوئی حرج نہیں۔
جس طرح قربانی کا گوشت فروخت کرنا منع ہے اسی طرح اس کا کوئی حصہ بطور معاوضہ دینا بھی جائز نہیں۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1716