صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ -- کتاب: حج کے مسائل کا بیان
125. بَابُ الذَّبْحِ قَبْلَ الْحَلْقِ:
باب: سر منڈوانے سے پہلے ذبح کرنا۔
حدیث نمبر: 1723
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: رَمَيْتُ بَعْدَ مَا أَمْسَيْتُ؟ فَقَالَ: لَا حَرَجَ، قَالَ: حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَنْحَرَ؟ قَالَ: لَا حَرَجَ".
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک آدمی نے مسئلہ پوچھا کہ شام ہونے کے بعد میں نے رمی کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی حرج نہیں۔ سائل نے کہا کہ قربانی کرنے سے پہلے میں نے سر منڈا لیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی حرج نہیں۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1983  
´بال منڈانے اور کٹوانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منیٰ کے دن پوچھا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: کوئی حرج نہیں، چنانچہ ایک شخص نے پوچھا: میں نے ذبح کرنے سے پہلے حلق کرا لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذبح کر لو، کوئی حرج نہیں، دوسرے نے کہا: مجھے شام ہو گئی اور میں نے اب تک رمی نہیں کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رمی اب کر لو، کوئی حرج نہیں ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1983]
1983. اردو حاشیہ: یوم النحر(دسویں تاریخ) اعمال اگر اس ترتیب سے ہوں کہ پہلے رمی جمرہ پھرقربانی حجامت اور طواف افاضہ ہو تو بہت ہی افضل ہے۔ورنہ آگے پیچھے بھی جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1983   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1723  
1723. حضرت ابن عباس ؓ سے ایک اور روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ سے دریافت کیا گیا: کسی نے کہا: میں نے غروب آفتاب کے بعد کنکریاں ماری ہیں۔ آپ نے فرمایا: کوئی حرج نہیں۔ اس نے عرض کیا: میں نے قربانی کرنے سے پہلے سر منڈوادیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کوئی حرج نہیں ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1723]
حدیث حاشیہ:
قسطلانی نے کہا رمی کرنے کا افضل وقت زوال تک ہے اور غروب آفتاب سے قبل تک بھی عمدہ ہے اور اس کے بعد بھی جائز ہے اور حلق اور قصر اور طواف الزیارۃ کا وقت معین نہیں، لیکن یو م النحر سے ان کی تاخیر کرنا مکروہ ہے اور ایام تشرقی سے تاخیر کرنا سخت مکروہ ہے۔
غرض یوم النحر کے دن حاجی کو چار کام کرنے ہوتے ہیں رمی اور قربانی اور حلق یا قصر، ان چاروں میں ترتیب سنت ہے، لیکن فرض نہیں، اگر کوئی کام دوسرے سے آگے پیچھے ہو جائے تو کوئی حرج نہیں جیسے کہ ان حدیثوں سے نکلتا ہے۔
امام مالک اور شافعی اور اسحاق اور ہمارے امام احمد بن حنبل سب کا یہی قول ہے اور امام ابوحنيفہ کہتے ہیں کہ اس پر دم لازم آئے گا اور اگر قارن ہے تو دو دم لازم آئیں گے۔
(وحیدی)
جب شارع ؑ نے خود ایسی حالتوں میں لا حرج فرما دیا تو ایسے مواقع پر ایک یا دو دم لازم کرنا صحیح نہیں ہے آج کل معلمین حاجیوں کو ان بہانوں سے جس قدر پریشان کرتے ہیں اور ان سے روپیہ اینٹھتے ہیں یہ سب حرکتیں سخت ناپسندیدہ ہیں۔
فی الواقع کوئی شرعی کوتاہی قابل دم ہو تو وہ تو اپنی جگہ پر ٹھیک ہے مگر خواہ مخواہ ایسی چیزیں از خود پیدا کرنا بہت ہی معیوب ہے۔
اس حدیث سے مفتیان اسلام کو بھی سبق ملتا ہے، جہاں تک ممکن ہو فتوی دریافت کرنے والوں کے لیے کتاب و سنت کی روشنی میں آسانی و نرمی کا پہلو اختیار کریں مگر حدود شرعیہ میں کوئی بھی نرمی نہ ہونی چاہئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1723   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1723  
1723. حضرت ابن عباس ؓ سے ایک اور روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ سے دریافت کیا گیا: کسی نے کہا: میں نے غروب آفتاب کے بعد کنکریاں ماری ہیں۔ آپ نے فرمایا: کوئی حرج نہیں۔ اس نے عرض کیا: میں نے قربانی کرنے سے پہلے سر منڈوادیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کوئی حرج نہیں ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1723]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے مذکورہ حدیث کو چھ طرق سے بیان کیا، کچھ متن کے ساتھ اور کچھ متن کے بغیر۔
چھ طرق اس طرح ہیں:
(1)
عبدالعزيز بن رفيع، عن عطاء، عن ابن عباس۔
(2)
قيس بن سعد، عن عطاء، عن جابر۔
(3)
ابن خثيم، عن عطاء، عن ابن عباس۔
(4)
عباد بن منصور، عن عطاء، عن جابر۔
(5)
ابن خثيم، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس۔
(6)
عكرمة، عن ابن عباس۔
تیسرے طریق سے یہ روایت معلق بیان ہوئی ہے جسے علامہ اسماعیلی نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔
چوتھے طریق کی معلق روایت کو امام احمد نے اپنی مسند میں بیان کیا ہے۔
پانچویں طریق کی معلق روایت کو سنن نسائی میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے۔
(عمدةالقاري: 335/7)
مذکورہ تمام روایات حجۃ الوداع سے متعلق ہیں۔
اس سال لوگوں کی کثیر تعداد حج میں شامل ہوئی۔
بعض نے ناواقفیت کی وجہ سے دسویں ذوالحجہ کے کام آگے پیچھے کر لیے کیونکہ اس دن پہلے رمی کی جاتی ہے، پھر قربانی ذبح کرنی ہوتی ہے، اس کے بعد حجامت بنوانا، پھر آخر میں طواف زیارت کرنا ہوتا ہے، نیز اس دن رمی بھی غروب آفتاب سے پہلے کرنی ہوتی ہے لیکن ناواقفیت کی وجہ سے اگر ان افعال کو آگے پیچھے کر لیا جائے تو کوئی حرج نہیں جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ دسویں ذوالحجہ کو منیٰ میں لوگوں کے لیے تشریف لائے، ایک آدمی آیا اور اس نے عرض کی:
اللہ کے رسول! میں نے لاعلمی کی بنا پر قربانی سے قبل اپنا سر منڈوا دیا ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
اب ذبح کر دے کوئی حرج نہیں۔
دوسرے نے عرض کی:
اللہ کے رسول! ناواقفیت کی وجہ سے میں نے رمی کرنے سے پہلے قربانی کر دی ہے۔
آپ نے فرمایا:
اب رمی کر لو کوئی حرج نہیں۔
اس دن آپ سے اس تقدیم و تاخیر کے متعلق جو بھی سوال ہوا تو آپ نے یہی جواب دیا کہ جاؤ اب کر لو اس میں کوئی حرج نہیں۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 3156(1306)
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے قربانی کرنے، سر منڈوانے، کنکریاں مارنے اور ان میں تقدیم و تاخیر کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا:
کوئی حرج نہیں (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1734) (2)
امام بخاری ان احادیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ قربانی سر منڈوانے سے پہلے کرنی چاہیے کیونکہ سائل کے سوال کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے اس بات کا علم تھا کہ قربانی حلق سے پہلے ہے لیکن اس نے اس کے برعکس کر لیا تھا۔
امام بخاری ؒ کے استدلال کی یہی بنیاد ہے، چنانچہ حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سر منڈوانے سے پہلے قربانی کی اور اپنے صحابہ کرام کو بھی اس کا حکم دیا۔
(صحیح البخاري، المحصر، حدیث: 1811)
اگرچہ مذکورہ ترتیب عمرۂ حدیبیہ کے موقع کی ہے، تاہم حج میں بھی مسنون ترتیب یہی ہے جیسا کہ علامہ البانی ؒ نے اسے ثابت کیا ہے۔
(حجةالنبي صلی اللہ علیه وسلم للألباني،ص: 85)
الغرض یہ ترتیب مسنون ہے، فرض نہیں۔
اگر کوئی کام آگے پیچھے ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1723