صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ -- کتاب: حج کے مسائل کا بیان
125. بَابُ الذَّبْحِ قَبْلَ الْحَلْقِ:
باب: سر منڈوانے سے پہلے ذبح کرنا۔
حدیث نمبر: 1724
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِالْبَطْحَاءِ، فَقَالَ: أَحَجَجْتَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: بِمَا أَهْلَلْتَ؟ قُلْتُ: لَبَّيْكَ بِإِهْلَالٍ كَإِهْلَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أَحْسَنْتَ، انْطَلِقْ فَطُفْ بالبيت وَبِالصَّفَا والمروة، ثُمَّ أَتَيْتُ امْرَأَةً مِنْ نِسَاءِ بَنِي قَيْسٍ فَفَلَتْ رَأْسِي، ثُمَّ أَهْلَلْتُ بِالْحَجِّ فَكُنْتُ أُفْتِي بِهِ النَّاسَ حَتَّى خِلَافَةِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَذَكَرْتُهُ لَهُ، فَقَالَ: إِنْ نَأْخُذْ بِكِتَابِ اللَّهِ، فَإِنَّهُ يَأْمُرُنَا بِالتَّمَامِ، وَإِنْ نَأْخُذْ بِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَحِلَّ حَتَّى بَلَغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا کہ مجھے میرے باپ عثمان نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں قیس بن مسلم نے، انہیں طارق بن شہاب نے اور ان سے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ بطحاء میں تھے۔ (جو مکہ کے قریب ایک جگہ ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تو نے حج کی نیت کی ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تو نے احرام کس چیز کا باندھا ہے میں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احرام کی طرح باندھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو نے اچھا کیا اب جا۔ چنانچہ (مکہ پہنچ کر) میں نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا و مروہ کی سعی کی، پھر میں بنو قیس کی ایک خاتون کے پاس آیا اور انہوں نے میرے سر کی جوئیں نکالی۔ اس کے بعد میں نے حج کی لبیک پکاری۔ اس کے بعد میں عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت تک اسی کا فتویٰ دیتا رہا پھر جب میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے اس کا ذکر کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہمیں کتاب اللہ پر بھی عمل کرنا چاہئے اور اس میں پورا کرنے کا حکم ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر بھی عمل کرنا چاہئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قربانی سے پہلے حلال نہیں ہوئے تھے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1724  
1724. حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اس وقت حاضر ہواجب آپ وادی بطحاء میں تشریف فرما تھے۔ آپ نے دریافت کیا: آیا تو نے حج کی نیت کی ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ نے پوچھا: تونے احرام کیسا باندھا؟ میں نے عرض کیا: نبی ﷺ کے احرام جیسا احرام باندھا تھا۔ آپ نے فرمایاتو نے اچھا کیا۔ اب جاؤ بیت اللہ کا طواف کرو اور صفاو مروہ کی سعی کرو۔ (اس سے فراغت کے بعد)پھر میں بنو قیس کی ایک خاتون کے پاس آیا تو اس نے میرے سر سے جوئیں نکالیں۔ اس کے بعد میں نے دوبارہ حج کا احرام باندھا۔ میں حضرت عمر فاروق ؓ کی خلافت تک یہی فتوی دیتا رہا۔ اس کے بعد جب میں نے حضرت عمر ؓ سے اس کا ذکر کیا تو انھوں نے فرمایا: اگر ہم کتاب اللہ کو لیں تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں حج اور عمرہ دونوں کو پورا کرنے کا حکم دیا ہے اور اگر سنت رسول اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1724]
حدیث حاشیہ:
ہوا یہ کہ ابوموسیٰ ؓ کے ساتھ قربانی نہ تھی۔
جن لوگوں کے ساتھ قربانی نہ تھی گو انہوں نے میقات سے حج کی نیت کی تھی مگر آنحضرت ﷺ نے حج کو فسخ کرکے ان کو عمرہ کرکے احرام کھولنے کا حکم دیا اور فرمایا اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتی تو میں بھی ایسا ہی کرتا، ابوموسیٰ ؓ اسی کے مطابق فتویٰ دیتے رہے کہ تمتع کرنا درست ہے اور حج کو فسخ کرکے عمرہ بنا دینا درست ہے، یہاں تک کہ حضرت عمر ؓ کا زمانہ آیا تو انہوں نے تمتع سے منع کیا۔
(وحیدی)
اس روایت سے باب کا مطلب یوں نکلا کہ جب آنحضرت ﷺ نے اس وقت تک احرام نہیں کھولا جب تک قربانی اپنی ٹھکانے نہیں پہنچ گئی یعنی منیٰ میں ذبح یا نحر نہیں کی گئی تو معلوم ہوا کہ قربانی حلق پر مقدم ہے اور باب کا یہی مطلب تھا۔
حضرت عمر ؓ نے اللہ کی کتاب سے یہ آیت مراد لی ﴿وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ﴾ (البقرة: 196)
اور اس آیت سے استدلال کرکے انہوں نے حج کو فسخ کرکے عمرہ بنا دینا اور احرام کھول ڈالنا ناجائز سمجھا حالانکہ حج کو فسخ کرکے عمرہ کرنا آیت کے خلاف نہیں ہے کیوں کہ اس کے بعد حج کا احرام باندھ کر اس کو پورا کرتے ہیں اور حدیث سے بھی استدلال صحیح نہیں اس لیے کہ آنحضرت ﷺ ہدی ساتھ لائے تھے اور جو شخص ہدی ساتھ لائے اس کو بے شک احرام کھولنا اس وقت تک درست نہیں جب تک ذبح نہ ہو لے لیکن کلام اس شخص میں ہے جس کے ساتھ ہدی نہ ہو۔
(وحیدی)
و مطابقتة للترجمة من قول عمر فیه لم یحل حتی بلغ الهدي محله لأن بلوغ الهدي محله یدل علی ذبح الهدي فلو تقدم الحلق علیه لصار متحللا قبل بلوغ الهدي محله و هذا هو الأصل و هو تقدیم الذبح علی الحلق و أما تأخیرہ فهو رخصة۔
(فتح)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1724   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1724  
1724. حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اس وقت حاضر ہواجب آپ وادی بطحاء میں تشریف فرما تھے۔ آپ نے دریافت کیا: آیا تو نے حج کی نیت کی ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ نے پوچھا: تونے احرام کیسا باندھا؟ میں نے عرض کیا: نبی ﷺ کے احرام جیسا احرام باندھا تھا۔ آپ نے فرمایاتو نے اچھا کیا۔ اب جاؤ بیت اللہ کا طواف کرو اور صفاو مروہ کی سعی کرو۔ (اس سے فراغت کے بعد)پھر میں بنو قیس کی ایک خاتون کے پاس آیا تو اس نے میرے سر سے جوئیں نکالیں۔ اس کے بعد میں نے دوبارہ حج کا احرام باندھا۔ میں حضرت عمر فاروق ؓ کی خلافت تک یہی فتوی دیتا رہا۔ اس کے بعد جب میں نے حضرت عمر ؓ سے اس کا ذکر کیا تو انھوں نے فرمایا: اگر ہم کتاب اللہ کو لیں تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں حج اور عمرہ دونوں کو پورا کرنے کا حکم دیا ہے اور اگر سنت رسول اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1724]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اس روایت سے اس طرح عنوان ثابت کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ کے فرمان کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے قربانی ذبح کرنے سے پہلے احرام نہیں کھولا۔
اس سے معلوم ہوا کہ قربانی حلق کرنے سے پہلے ہے کیونکہ اگر بال منڈوا دیے ہوتے تو آپ پر احرام کی پابندی ختم ہو جانی تھی لیکن احرام کی پابندی کو قربانی ذبح کرنے تک برقرار رکھا گیا ہے۔
اصل ترتیب یہی ہے کہ قربانی، سر منڈوانے سے پہلے کی جائے، قربانی سے پہلے سر منڈوانا تو ایک رخصت ہے۔
(فتح الباري: 707/3) (2)
حضرت عمر ؓ نے قرآنی آیت اور حدیث نبوی سے تمتع کے عدم جواز پر دلیل لی ہے۔
اس کی تفصیل ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ حج کو فسخ کر کے عمرہ کرنا آیت کریمہ کے خلاف نہیں کیونکہ اس کے بعد حج کا احرام باندھ کر اسے پورا کیا جاتا ہے۔
اور حدیث نبوی سے استدلال بھی محل نظر ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی قربانی ساتھ لائے تھے اور جو شخص قربانی ساتھ لے کر آئے اس کے لیے قربانی ذبح ہونے تک احرام کھولنا جائز نہیں لیکن یہ کلام اس شخص سے متعلق ہے جو قربانی ساتھ لے کر نہ آیا ہو۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1724